سری نگر میں بھارتی قابض فورسز کی حریت رہنماؤں کے خلاف بربریت ایک بار پھر سر اٹھانے لگی ہے۔ اس بار 36 سال پرانے مقدمے کو بہانہ بنا کر کشمیری حریت رہنما یاسین ملک اور دیگر آزادی پسندوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 12 اگست 2025 کو بھارت کی مرکزی حکومت کے ماتحت اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی اے) اور بھارتی نیم فوجی دستوں نے سری نگر شہر کے مختلف علاقوں میں آٹھ مقامات پر چھاپہ مار کارروائیاں کیں۔
ان کارروائیوں میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین محمد یاسین ملک، پیر نور الحق شاہ عرف ایئر مارشل، جاوید احمد میر، ریاض کبیر شیخ، بشیر احمد گوجری، فیروز احمد خان، قیصر احمد ٹپلو اور غلام محمد ٹپلو کے گھروں کی تلاشی لی گئی۔

بھارت نے ان چھاپوں کو 1990 میں ہونے والے سرلا بھٹ قتل کیس سے جوڑنے کی کوشش کی، جو کشمیری پنڈت برادری سے تعلق رکھنے والی ایک نرس تھیں۔
18 اپریل 1990 کو سورا میں واقع شیر کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ہاسٹل سے اغوا ہونے والی سرلا بھٹ کی لاش اگلے روز سری نگر کے ملال باغ علاقے سے برآمد ہوئی تھی۔

بھارت نے اس قتل کو کشمیری پنڈتوں کے انخلا کی سازش قرار دیا تھا، لیکن کشمیری عوام اور حریت قیادت اس کہانی کو بھارتی ایجنسیوں کی گھڑی ہوئی سازش سمجھتے ہیں، جس کا مقصد آزادی کی تحریک کو بدنام کرنا اور عالمی برادری کو گمراہ کرنا تھا۔
یاسین ملک، جو اس وقت جے کے ایل ایف کی قیادت میں شامل تھے، ان کا نام بھی اس کیس میں گھسیٹا گیا۔
حالانکہ یہ مقدمہ دہائیوں تک سرد خانے میں پڑا رہا، لیکن اب مودی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد 90 کی دہائی کے پرانے اور جھوٹے مقدمات دوبارہ کھولنے کا حکم دیا تاکہ آزادی پسند قیادت کو دبایا جا سکے۔
یاد رہے کہ یاسین ملک پہلے ہی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں عمر قید کاٹ رہے ہیں اور اب یہ پرانا کیس ان کے خلاف ایک اور انتقامی حربہ بن کر سامنے آیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق، جے کے ایل ایف نے ایک سخت بیان میں یاسین ملک کے گھر پر چھاپے اور ان کی معمر والدہ اور بہن کی تذلیل کی شدید مذمت کی۔
تنظیم نے کہا کہ بھارت جعلی مقدمات اور یکطرفہ عدالتی نوٹسز کے ذریعے آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن کشمیری عوام اپنے اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ حقِ خودارادیت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
دوسری جانب جموں و کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے بھی ان چھاپوں کو حریت رہنماؤں اور ان کے خاندانوں کو ہراساں کرنے کی کھلی سازش قرار دیا۔
تنظیم ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے کہا کہ بھارت اپنی نام نہاد تحقیقاتی ایجنسیوں کو سیاسی انتقام کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، لیکن یہ جبر کشمیری عوام کی آزادی کی تڑپ کو ختم نہیں کر سکتا۔
یہ کارروائیاں واضح کرتی ہیں کہ مودی سرکار کشمیر میں آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے ہر حد پار کرنے کو تیار ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ نہ گولیاں، نہ جیلیں، اور نہ ہی جھوٹے مقدمات کشمیریوں کے عزم کو شکست دے سکے ہیں اور نہ ہی دے سکیں گے۔