طالبان کے اقتدار پر قبضے کی چوتھی سالگرہ جمعہ (15 اگست) کو افغانستان بھر میں منائی گئی، تاہم خواتین کو تمام تقریبات سے دور رکھا گیا۔ کابل میں ہزاروں مرد جمع ہوئے جہاں ہیلی کاپٹروں سے پھول برسائے گئے، لیکن خواتین کو اس تقریب میں شرکت کی اجازت نہ ملی۔
تقریب کے چھ مقامات میں سے تین وہ تھے جو پہلے ہی خواتین کے لیے بند ہیں، کیونکہ نومبر 2022 سے طالبان حکومت نے خواتین کے پارکس اور تفریحی مقامات میں جانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ اس موقع پر افغان کابینہ کے وزراء نے تقاریر بھی کیں، تاہم متوقع کھیلوں کا مظاہرہ نہ ہوسکا۔
طالبان نے 15 اگست 2021 کو اس وقت افغانستان پر قبضہ کیا تھا جب امریکا اور نیٹو نے اپنی دو دہائیوں پر مبنی طویل جنگ کے بعد فوجی انخلا مکمل کیا۔ اس کے بعد سے طالبان اپنے رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ کے فتووں اور اسلامی قوانین کی بنیاد پر امور چلا رہے ہیں، جن میں خواتین پر پابندیاں بھی شامل ہیں۔

خواتین اور بچیوں کو چھٹی جماعت سے آگے تعلیم، بیشتر ملازمتوں اور عوامی مقامات میں داخلے سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس پالیسی پر اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی حکومتوں نے شدید تنقید کی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ”دی گارڈین“ کے مطابق، جمعہ کے روز افغان خواتین کے گروپ ”یونائیٹڈ افغان ویمنز موومنٹ فار فریڈم“ نے تخار صوبے میں انڈور احتجاج کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دن افغانستان پر سیاہ تسلط کی شروعات ہے جس نے خواتین کو تعلیم، روزگار اور سماجی زندگی سے محروم کر دیا۔ یہ دن ایک زخم ہے جو آج تک نہیں بھرا۔‘
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی افغان خواتین نے انڈور احتجاج کیا۔ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھے جن پر لکھا تھا: ’طالبان کو معاف کرنا انسانیت سے دشمنی ہے‘ اور ’15 اگست ایک سیاہ دن ہے‘۔ خواتین مکمل طور پر نقاب میں تھیں اور صرف آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔
اسی دن طالبان سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ایک بیان میں کہا کہ افغان عوام نے نصف صدی قربانیاں دے کر شریعت قائم کی ہے جس نے ملک کو کرپشن، منشیات، چوری اور ظلم سے بچایا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جو لوگ اسلامی نظام پر ناشکری کریں گے، وہ اللہ کے سخت عذاب کا شکار ہوں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے ہیبت اللہ اخوندزادہ اور افغانستان کے چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی کے خلاف خواتین اور بچیوں پر مظالم کے جرم میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ان پر ایسے احکامات دینے کے معقول شواہد موجود ہیں جنہوں نے خواتین کو تعلیم، نجی و خاندانی زندگی اور نقل و حرکت، اظہار اور مذہب کی آزادی سے محروم کیا۔
اس سال کی تقریبات گزشتہ برس کی نسبت محدود رہیں۔ پچھلے سال طالبان نے امریکی ایئربیس پر فوجی پریڈ کیا تھا، جہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی اسلحہ چھوڑنے پر غصے کا اظہار کیا تھا۔
افغانستان اس وقت شدید انسانی بحران کا بھی شکار ہے، جسے موسمیاتی تبدیلی، ایران و پاکستان سے لاکھوں افغان مہاجرین کی جبری واپسی اور عالمی امداد میں کمی نے مزید سنگین بنا دیا ہے۔