امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی حالیہ ملاقات پر بھارتی میڈیا نے ایک مضحکہ خیز دعویٰ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ سے ملاقات کرنے والا اصل پیوٹن نہیں بلکہ اس کا ڈمی تھا۔ یہ دعویٰ نہ صرف حقیقت سے کوسوں دور ہے بلکہ عالمی صحافت کے لیے بھی شرمناک لمحہ ہے، جو بھارتی میڈیا کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔
جمعے کے روز جوائنٹ بیس ایلمینڈورف-رچرڈسن (JBER) میں ہونے والی اس ملاقات کا دورانیہ تقریباً 4 گھنٹے رہا، جس کے بعد دونوں رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں گفتگو کو ”تعمیری“ قرار دیا، اگرچہ یوکرین جنگ کے حوالے سے سیز فائر کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے اس ملاقات کو سنجیدگی سے رپورٹ کیا، وہیں بھارتی میڈیا نے ایک بار پھر سنجیدہ سفارتی معاملات کو سازشی تھیوری میں بدلنے کی کوشش کی۔
بھارتی چینلز اور ویب سائٹس نے یہ دعویٰ کیا کہ ٹرمپ سے ملاقات کرنے والا شخص دراصل روسی صدر پیوٹن نہیں بلکہ اُن کا ہم شکل (ڈمی) تھا۔
بھارتی میڈیا نے اس حیران کن دعوے کی بنیاد پیوٹن کے چلنے کے انداز، ہاتھ ہلانے کے معمول، چہرے کے تاثرات، اور بالوں کی ترتیب پر رکھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل پیوٹن چلتے وقت دایاں ہاتھ نہیں ہلاتے، جبکہ ملاقات کے لیے آنے والے شخص کا دایاں ہاتھ ہلتا دیکھا گیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، ”اصلی پیوٹن کم مسکراتے ہیں، جب کہ یہ پیوٹن ملاقات کے دوران ہنستے اور خوش نظر آ رہے تھے۔“
یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران نظر آنے والے پیوٹن کے چہرے کے خدوخال اور بالوں کا انداز حقیقی پیوٹن سے مختلف تھا۔ ان قیاس آرائیوں کی بنیاد پر بھارتی میڈیا نے یہاں تک نتیجہ نکال لیا کہ ملاقات اس لیے ناکام رہی کیونکہ اس میں شامل روسی رہنما، درحقیقت، صدر پیوٹن ہی نہیں تھے۔
ماہرین اور تجزیہ کار بھارتی میڈیا کی اس روش کو غیر سنجیدگی اور فلمی ڈراموں سے متاثرہ صحافت کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں، جو سنجیدہ عالمی معاملات کو بھی تفریحی اور بے بنیاد خبروں میں بدل دیتی ہے۔ اس قسم کا غیر ذمہ دارانہ رویہ نہ صرف صحافتی اقدار کے منافی ہے بلکہ عوام کو گمراہ کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔