کیف کسی بھی صورت میں روس کو اپنی زمین نہیں دے گا، زیلنسکی کا دوٹوک اعلان

0 minutes, 0 seconds Read

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے جنگ بندی کے بدلے ایک انچ زمین بھی روس کو دینے سے ایک بار پھر انکار کردیا ۔

یوکرینی صدر ر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کیف کسی بھی صورت میں روس کو اپنی زمین نہیں دے گا۔ ان کا یہ بیان اس قیاس آرائی کے بعد آیا ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ یوکرین ممکنہ طور پر ”زمین کے بدلے امن“ پر بات چیت کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔

یورپی کمیشن میں پریس کانفرنس کے دوران زیلنسکی نے کہا ”یوکرین کا آئین کسی بھی علاقے سے دستبردار ہونے یا زمین کے بدلے امن معاہدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔“

انہوں نے مزید کہا کہ روس پچھلے 12 سالوں سے مشرقی یوکرین کے اہم صنعتی خطے، ڈونباس، پر مکمل قبضے کی ناکام کوششیں کرتا آ رہا ہے۔ اس علاقے میں ڈونیٹسک اور لوہانسک شامل ہیں، جو کوئلہ اور فولاد کی صنعت کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں۔

زیلنسکی نے تجویز دی کہ چونکہ علاقائی مسئلہ حساس ترین نوعیت کا ہے، اس لیے یہ صرف یوکرین، روس اور امریکا کے سربراہان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا ”اب تک روس نے اس قسم کی سہ فریقی ملاقات کے لیے کوئی رضامندی ظاہر نہیں کی ہے،“

یورپی کمیشن کی صدر وان ڈیر لیین جو زیلنسکی کے ہمراہ موجود تھیں، نے بھی یوکرینی مؤقف کی بھرپور تائید کرتے ہوئے کہا ”یوکرین کی علاقائی حدود کو طاقت کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فیصلے صرف یوکرین کے ذریعے ہی کیے جا سکتے ہیں، اور ان میں یوکرین کو شریک کیے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں۔“

یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جمعے کے روز الاسکا میں ملاقات ہوئی، جس میں پیوٹن نے جنگ کے خاتمے کے لیے مشرقی یوکرین کے کچھ علاقوں پر روسی کنٹرول کی شرط رکھی۔

ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ زیلنسکی کو پیوٹن کی شرائط قبول کر لینی چاہئیں کیونکہ ”روس ایک بڑی طاقت ہے اور یوکرین نہیں“۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کیا کہ صدر ٹرمپ، زیلنسکی پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ اپنی خودمختار زمین روس کے حوالے کریں۔

Similar Posts