پڑھے لکھے نوجوان ہی کالعدم بی ایل اے کا حصہ کیوں بن رہے ہیں؟

0 minutes, 0 seconds Read

حال ہی میں کالعدم تنظیم (بی ایل اے) کی سہولت کاری میں ملوث بیوٹیمز یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عثمان قاضی کو کوئٹہ کے علاقے افنان ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا جس کے بعد ان کا اعترافی ویڈیو بیان سامنے آیا۔

اپنے اعترافی بیان میں گرفتار ملزم عثمان قاضی کا کہنا تھا کہ اُن کا تعلق تربت سے ہے جنہوں نے ملک کے مختلف اداروں سے تعلیم حاصل کی اور بیوٹمز یونیورسٹی میں بطور 18 گریڈ لیکچرر کے فرائض انجام دیے۔

لیکچرر کا اعترافی بیان میں کہنا تھا ہم دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے ٹیلی گرام ایپلی کیشن کا استعمال کرتے تھے۔

ڈاکٹر عثمان کے مطابق ان کی اہلیہ بھی سرکاری ملازمہ ہیں۔ ملزم نے ویڈیو میں اعتراف کیا کہ انہیں ریاست نے سب کچھ دیا۔ عزت اور وقار دیا۔ انہیں اور ان کی اہلیہ کو بھی نوکری دی اس کے باوجود انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی اور ریاست کے ساتھ غداری کی۔

ڈاکٹر عثمان نے کہا کہ میں اپنے کیے پر تہہ دل سے شرمندہ ہوں۔ اس ویڈیو بیان کو ریکارڈ کرانے کا مقصد نوجوان نسل سے کہنا ہے کہ وہ اس طرح کی انتشار پھیلانے والی تنظیموں سے دور رہیں۔

کتنے پڑھے لکھے نوجوان بی ایل اے سے منسلک ہوئے اور کیوں؟

یہ پہلا واقعہ نہیں جب کوئی تعلیم یافتہ نوجوان بی ایل اے کے رکن کے طور پر سامنے آیا ہو، بلکہ اس سے قبل بھی مختلف طلبا کالعدم تنظیم کی تخریب کاری میں ملوث رہ چکے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور اور حیرت کا باعث ہے صرف نوجوان مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہ چکی ہیں۔ یعنی خواتین کو خودکش بمباری کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے۔

خودکش حملہ آور شاری بلوچ

اپریل 2022 میں جامع کراچی میں چینی زبان کے مرکزی دروازے پر خودکش حملے میں 3 چینی اساتذہ سمیت کم از کم 4 افراد ہلاک اور 4 زخمی ہوئے تھے، جس کے پیچھے کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک خودکش بمبار شاری بلوچ ملوث تھیں۔ حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کی تھی۔

30 سالہ شاری بلوچ اپنے ضلع کیچ میں سیکنڈری اسکول ٹیچر تھیں جنہوں نے 2014 میں اپنا بی ایڈ مکمل کیا تھا جبکہ سنہ 2018 میں ایم یڈ مکمل کیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے زولوجی میں ماسٹر کیا تھا اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، تربت کیمپس سے ایم فل کر رہی تھیں۔

شاری اپنے پیچھے دو معصوم بچوں، مہرش اور میر حسن، چھوڑ گئیں۔ شاری بلوچ کی تباہی کے پیچھے بشیر زیب بلوچ نامی پی ایل اے کے رکن کا ہاتھ تھا جس نے شاری کو دہشت گرد بننے پر اکسایا تھا۔ بشیر زیب بلوچ پر الزام ہے کہ اس نے کئی خواتین کی خوابوں کا استحصال کر کے انہیں دہشت گرد بننے کی ترغیب دی۔

خودکش بمبار سمعیہ قلندرانی بلوچ

25 سالہ سمعیہ قلندرانی کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے توتک سے تھا۔ سمعیہ نے 24 جون 2023 کو تربت میں خودکش حملے میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا تھا۔

سمعیہ تعلیم یافتہ اور صحافت کے شعبے سے منسلک تھیں اور وہ بی ایل اے کے بانی اسلم بلوچ کی بہو تھیں۔ وہ بلوچ قبیلے قلندرانی سے وابستہ تھیں۔

توتک سے 18 فروری، 2011 کو آپریشن کے دوران مبینہ طور پر سمعیہ کے دادا، چچا اور متعدد رشتہ دار لاپتہ ہو گئے تھے۔ کالعدم تنظیم بی ایل اے نے دعویٰ کیا تھا کہ سمعیہ 5 سال تک ان کے میڈیا کے لیے بھی کام کرتی رہی ہیں۔

سابق بی ایل اے دہشت گرد طلعت عزیز

پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم طلعت عزیز دہشت گرد تنظیم بی ایل اے کا حصہ رہ چکے ہیں۔

نومبر 2024 میں کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران طلعت عزیز نے بی ایل اے چھوڑ کر قومی دھارے میں واپسی کی راہ اپنانے کا اعلان کیا تھا۔

سابق بی ایل اے کمانڈر طلعت عزیز نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں بلوچ کونسل اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ارکان نے ورغلا کر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کا حصہ بنایا تھا تاہم غلطی کا احساس ہونے پر بھاگ کر بی ایل سے جان چھڑائی۔

بی ایل اے کتنے دھڑوں پر مشتمل ہے؟

بی ایل اے تنظیم دو دھڑوں پر مشتمل ہے جن میں ایک بی ایل اے ’زیب‘ ہے اور دوسرا ’حیربیار مری‘ ہے۔

بی ایل اے زیب دھڑا خودکش حملوں کو اپنی حکمتِ عملی کا حصہ بناتا ہے۔ مجید بریگیڈ اسی گروپ کا عسکری ونگ ہے۔ یہ دہشت گرد دھڑا سیکیورٹی فورسز پر حملے اور خودکش بمباری میں ملوث پایا جاتا ہے۔

جبکہ حیربیار مری کا (آزاد) دھڑا چھوٹے طرز کے اور مہلک حملے کرتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکا نے چند روز قبل کالعدم بی ایل اے اور مجید بریگیڈ گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔

Similar Posts