سہیل وڑائچ کا کالم اور آرمی چیف کے انٹرویو کی تردید، معاملہ کیا ہے؟

0 minutes, 0 seconds Read

پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے حالیہ عرصے کے دوران کسی صحافی کو کوئی انٹرویو نہیں دیا اور ان کے بیان سے منسوب کالم من گھڑت ہے۔

فوجی ترجمان نے جمعرات کو اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیلجئم کے دارالحکومت برسلز میں آرمی چیف سے ملاقات کے دوران سیکڑوں لوگوں نے تصاویر بنوائیں لیکن ایک سینئر صحافی نے ذاتی مفاد اور تشہیر حاصل کرنے کی کوشش کی۔

واضح رہے کہ سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے سولہ اگست کو جنگ اخبار میں شائع اپنے کالم میں دعویٰ کیا تھا کہ برسلز میں ان کی آرمی چیف سے پہلی ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے سربراہ پاک فوج سے کھردرے سوالات کیے جن کے انہوں نے واضح اور شفاف جوابات دیے۔

’فیلڈ مارشل سے پہلی ملاقات’ کے عنوان سے شائع کالم میں سہیل وڑائچ نے دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی حوالے سے کیے گئے سوال پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ سیاسی مصلحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے۔

کالم نگار کا اشارہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جانب تھا، جو دو سال سے زائد عرصے سے جیل میں قید ہیں۔

سہیل وڑائچ کے کالم پر جب سوشل میڈیا پر بات ہونے لگی تو انہوں نے سترہ اگست کو آرمی چیف کے ہمراہ لی گئی ایک تصویر سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر شیئر کی۔

تاہم جمعرات کو فوج کے ترجمان نے سہیل وڑائچ کے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جس کالم کی بات کی جا رہی ہے وہ برسلز کا ایک ایونٹ تھا اور آرمی چیف نے اس ایونٹ میں نہ تو پاکستان تحریکِ انصاف کا ذکر کیا اور نہ ہی معافی کا۔ البتہ ایک صحافی نے اس طرح کا ذکر کر کے ذاتی مفاد اور تشہیر حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے مطابق صحافی نے نامناسب حرکت کی اور افسوس ہے کہ ایک سینئر صحافی نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔ ان کے بقول، غیر قانونی حرکت کرنے والے کو قانون کے کٹہرے میں آنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ فوج کا نو مئی واقعات پر مؤقف روزِ اول سے ایک ہی ہے اور ان واقعات کے ذمہ داروں اور سہولت کاروں کو کٹہرے میں آنا ہوگا۔

عرب نیوز سے وابستہ صحافی نعمت خان کہتے ہیں کہ اگر سہیل وڑائچ کی واقعی فوجی سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر سے دو گھنٹے کی ملاقات نہیں ہوئی تو یہ ان کی ساکھ پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

سینئر صحافی نصرت جاوید سہیل وڑائچ کے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک محنتی رپورٹر اور کالم نگار کی حیثیت سے سہیل وڑائچ حتمی پالیسی سازوں تک رسائی کے لیے کچھ بھی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

سابق رکنِ قومی اسمبلی سائرہ بانو فوجی ترجمان کی میڈیا سے گفتگو اور سہیل وڑائچ کے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ خدا جانے کون سچ بول رہا ہے۔

ایک اور صحافی محمد عمیر نے ایکس پر لکھا کہ سہیل وڑائچ جیسا صحافی بغیر بات چیت اتنی بڑی خبر(انٹرویو) نہیں چھاپ سکتا، چیزیں 19 اکیس ہوسکتی ہیں میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ بات چیت ہی نہیں ہوئی۔ انٹرویو میں کہی باتوں پر رسپانس ایسا آیا کہ تردید کرنی پڑی ورنہ انٹرویو چھپنے کے اتنے دن بعد تردید کیوں؟ اسی روز بھی پریس ریلیز جاری ہوسکتی تھی۔

Similar Posts