تہران: ایران نے اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد اپنی پہلی بحری فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ایرانی سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق خلیجِ عمان اور بحرِ ہند میں ایرانی بحریہ کی جانب سے مشقوں کے دوران میزائل فائر کیے گئے۔
امریکی خبر رساں ادارے (اے پی) کے مطابق یہ مشقیں، جنہیں ”پائیدارقوت 1404“ (Sustainable Power 1404) کا نام دیا گیا ہے، ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب ایرانی حکام اسرائیل سے حالیہ جنگ کے بعد اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جنگ کے دوران اسرائیل نے ایران کے فضائی دفاعی نظام، جوہری تنصیبات اور دیگر اہم مراکز کو نشانہ بنایا تھا۔ جواب میں ایران کی جانب سے بھی اسرائیل کے مختلف علاقوں میں اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق مشقوں کے دوران ایرانی بحریہ کے فریگیٹ جہاز آئی آر آئی ایس سبالان اور ایک چھوٹے جہاز آئی آر آئی ایس گناوہ نے ’ناصر‘ اور ’قادر‘ کروز میزائلوں سے سمندری اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ ساحلی دفاعی نظام سے بھی فائرنگ کی گئی۔
ایرانی بحریہ، جس میں لگ بھگ 18,000 اہلکار شامل ہیں، حالیہ جنگ کے دوران کسی بڑے حملے کی زد میں نہیں آئی۔ یہ فورس بندرعباس کے ساحلی شہر میں تعینات ہے اور خلیج عمان، بحرِ ہند اور بحیرہ قزوین میں گشت کرتی ہے۔
خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کی نگرانی پاسداران انقلاب کی بحری شاخ کے سپرد ہے، جو اس سے قبل مغربی جہازوں کو روکنے اور امریکی بحریہ کی نگرانی جیسے اقدامات کے لیے جانی جاتی ہے۔
ایران کا واضح پیغام: ”مستقبل کے حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا“
ایران نے جنگ کے بعد سے مسلسل اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ آئندہ کسی بھی اسرائیلی کارروائی کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ ایرانی وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل عزیز ناصر زادہ نے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کو بتایا کہ ایران نے اپنی افواج کو جدید میزائلوں سے لیس کر دیا ہے۔
جنرل ناصر زادہ کا کہنا ہے کہ ہماری فورسز کسی بھی دشمن کی مہم جوئی کے جواب میں ان نئے میزائلوں کو مؤثر انداز میں استعمال کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔
جوہری معائنہ معطل، یورپی ممالک کی وارننگ
دوسری جانب ایران نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ اپنا تعاون معطل کر دیا ہے، جو ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی کر رہی تھی۔ ایران کی جانب سے یورینیم کو ہتھیاروں کے قریب درجے تک افزودہ کرنے پر عالمی برادری میں تشویش پائی جاتی ہے۔
فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے 31 اگست تک ایجنسی کے ساتھ تنازع کا ”قابل قبول حل“ نہ نکالا، تو وہ اقوامِ متحدہ کی وہ تمام پابندیاں دوبارہ نافذ کر دیں گے جو جوہری معاہدے کے تحت ہٹائی گئی تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی مکمل پابندیاں لگ گئیں تو یہ اس کی کمزور معیشت کے لیے مزید دھچکا ثابت ہو سکتی ہیں، جو پہلے ہی امریکی پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے۔