بھارت نے بدھ کو دریائے راوی ستلج چناب میں لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ دیا ہے جس کے بعد پنجاب کے مختلف علاقوں میں سیلابی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ دریاؤں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو نے سے 50 سے زائد دیہات زیرِ آب آ گئے ہیں۔
پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہونے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد سپر فلڈ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بعض ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پانی کے بہاؤ میں اضافے سے ملک کو 2010 اور 2022 کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
موجودہ سیلاب کے باعث پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، جب کہ کرتارپور گردوارے سمیت کئی اہم مقامات پانی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ دریائے ستلج اور راوی میں غیرمعمولی صورتحال کے باعث قریبی بستیاں دریا برد ہو گئیں اور رابطہ پل اور سڑکیں بہہ گئیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق دریائے چناب میں خانکی کے مقام پر پانی کا بہاؤ 10 لاکھ کیوسک سے تجاوزکر چکا ہے جبکہ ہیڈ ورکس کی ڈیزائن کردہ گنجائش 8 لاکھ کیوسک ہے۔ شدید سیلابی ریلے کے باعث ہیڈ ورکس کے ہائیڈرولک ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا۔
ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا کے مطابق قادر آباد ہیڈ ورکس کی صلاحیت سے 9 لاکھ 43 ہزار کیوسک پانی کی آمد ہوئی، جس کے پیش نظر رائٹ مارجنل بند میں بریچنگ کی گئی تاکہ آبپاشی اسٹرکچر کو بچایا جا سکے۔
ایمرجنسی صورتحال میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں پاک فوج کو طلب کر لیا گیا ہے۔
2010 کا سپرفلڈ
فیڈرل فلڈ کمیشن (ایف ایف سی) کی رپورٹ کے مطابق آزادی کے بعد سے پاکستان میں 29 بڑے سیلاب آچکے ہیں، جن میں 1950، 1955، 1956، 1973، 1975، 1977، 1981، 1992، 1994، 1995، اور پھر 2010 کے بعد ہر سال سیلاب آئے ہیں۔
ایف ایف سی کے مطابق 1995 کے سیلاب میں 2,190 افراد کی ہلاکتیں ہوئیں، 10,000 گاؤں متاثر ہوئے اور 17,920 مربع کلومیٹر زمین زیرِ آب آ گئی۔ 2010 کے سیلاب نے 160,000 مربع کلومیٹر علاقے کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ 1,985 افراد کی جانیں بھی گئیں اور 17,553 گاؤں پانی میں ڈوب گئے۔
یہ آفت پاکستان کی تاریخ کے مہلک ترین سیلابوں میں شمار ہوتی ہے، جس نے معیشت اور سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا۔ انتظامی سہولتیں مفلوج ہو گئیں اور بحالی کے عمل میں شدید رکاوٹیں پیش آئیں۔ سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو زیرِ آب کیا، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، زرعی زمینیں برباد، انفراسٹرکچر تباہ ہوا اور اربوں روپے کا نقصان ہوا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تخمینہ لگایا کہ ملک بھر میں تقریباً دو کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا، جہاں لاکھوں مکانات، پل اور سڑکیں تباہ ہوئیں۔ خیبر پختونخوا میں ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی، جب کہ سندھ، بلوچستان، اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی بری طرح متاثر ہوئے۔
12 سال بعد ایک اور تباہ کن آفت
2010 کے مہلک سیلاب کے 12 سال بعد، 2022 میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں دوبارہ شدید سیلاب آیا، جس نے سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، اور جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع کو شدید متاثر کیا۔ متاثرین کی مشکلات بڑھیں۔
این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق اس سیلاب نے 33 ملین افراد کو متاثر کیا، جن میں سے دو لاکھ سے زائد صرف سندھ کے افراد شامل تھے اور تقریباً 15 بلین ڈالر کے اقتصادی نقصانات ہوئے۔ 2022 کے سیلاب میں ملک کے 116 اضلاع متاثر ہوئے۔
محکمہ موسمیات اور ماہرین کے مطابق، 2010 کا سیلاب ”دریائی سیلاب“ تھا، جب کہ 2022 میں آنے والے سیلاب کو ”فلیش فلڈ“ یا تیز اور مسلسل بارشوں کی وجہ سے زمین کی گنجائش سے زیادہ پانی کا بہاؤ قرار دیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سیلاب میں تقریباً 900 افراد جاں بحق، لاکھوں مکانات متاثر اور ہزاروں کلومیٹر سڑکیں، پل اور دیگر انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ بلوچستان میں غذائی قلت اور امدادی رسائی میں مشکلات نے صورتحال کو پیچیدہ بنایا۔
اگرچہ حکومتی اداروں نے بروقت وارننگ دی تھی، مگر بارشوں کی شدت اور مسلسل سیلابی ریلوں کی وجہ سے نقصانات بہت زیادہ ہوئے۔
اس تباہ کن صورتحال کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستانی عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے پاکستان کا دورہ کیا جبکہ عالمی شہرت یافتہ اداکارہ انجیلینا جولی نے بھی سندھ کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں اور آگاہی مہمات میں تعاون فراہم کیا۔
2022 کا سیلاب بھی ملک کی تاریخ کے بڑے قدرتی آفات میں سے ایک ہے، جس نے 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد دوبارہ ملک کو سنبھلنے کا موقع کم دیا۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 1951 سے 2020 تک پاکستان میں قدرتی آفات سے 13,262 اموات ہوئیں، 197,273 گاؤں متاثر ہوئے اور 616,558 مربع کلومیٹر اراضی پر تباہی آئی، جس سے 39 ارب روپے کا اقتصادی نقصان ہوا۔
سیلاب کی پیشگوئی کی کمی اور حکومتی تیاریوں پر تنقید
سابق وفاقی وزیر عمر سیف کے مطابق 2022 کے سیلاب کے دوران پاکستانی ٹیکنالوجی ادارے عالمی اداروں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے سیلاب کے اثرات کا تجزیہ کر رہے تھے۔ اے آئی سائیٹ۔ اے آئی (aiSight.ai) نے ورلڈ بینک کے ساتھ مل کر تعلیم پر سیلاب کے اثرات کا جائزہ لیا، جس میں جدید ٹیکنالوجیز جیسے مصنوعی ذہانت، سیٹلائٹ امیجز، جغرافیائی تجزیہ، اسکولوں کا ڈیٹا اور پیشن گوئی کے ماڈلز شامل تھے۔
عمر سیف نے کہا کہ یہ پلیٹ فارم دنیا کے سب سے جدید فلڈ امپیکٹ انیلیسس سسٹمز میں شامل ہے، جس کا مقصد نہ صرف 2022 کے سیلاب کے تعلیمی نقصانات کا اندازہ لگانا تھا، بلکہ اب 2025 کے ممکنہ سپر فلڈ کے اثرات کی نگرانی بھی کی جا رہی ہے تاکہ متاثرہ علاقوں تک جلد اور مؤثر امداد پہنچ سکے۔
سینئر سیاستدان سید مشاہد حسین نے اپنے ایک حالیہ ٹوئیٹ میں کہا کہ سیلاب اب ایک معمولی صورتحال بن چکا ہے، لیکن اس کے باوجود حکومت نے اس کے لیے مناسب تیاری نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر متعدد ادارے موجود ہونے کے باوجود سیلاب جیسے قدرتی آفات کی پیشگوئی اور تیاری کے حوالے سے کوئی سنجیدہ تحقیق نہیں کی گئی۔
سینئر صحافی نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ”ایک سپر فلڈ ہم پر آ رہا ہے، لیکن جب یہ ترقی کر رہا تھا، کسی نے اس کا مقداری تجزیہ نہیں کیا۔ اب ہم صرف چناب، راوی، ستلج اور جہلم میں خوفناک اعداد و شمار دیکھ رہے ہیں، جب کہ سندھ کے معاون دریاؤں میں سیلاب کی سطح بلند ہو چکی ہے۔ ہمیں شمالی علاقوں میں فلیش فلڈز آنے کے دوران اپنے حسابات شروع کر دینے چاہیے تھے۔“
سپر فلڈ ہوتا کیا ہے؟
سپر فلڈ ایک ایسا شدید اور غیر معمولی سیلاب ہوتا ہے جو معمول کے سیلابوں سے کئی گنا زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہوتا ہے۔ اس میں دریا اپنی معمول کی گنجائش سے کہیں زیادہ پانی خارج کرتے ہیں، جس سے لاکھوں افراد بے گھر ہو سکتے ہیں اور زرعی و معاشی نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
پاکستان کو 2010 اور 2022 میں دو ایسے سپر فلڈز کا سامنا رہا، جنہوں نے مجموعی طور پر کروڑوں افراد کو متاثر کیا اور اربوں ڈالر کا نقصان کیا۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلاؤ، غیر متوقع مون سون بارشیں اور دریاؤں میں پانی کی بے قابو روانی مستقبل میں مزید سپر فلڈز کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔
یہ سیلاب نہ صرف جانی و مالی نقصانات کا باعث بنتے ہیں، بلکہ صحت عامہ، خوراک، پانی اور توانائی جیسے بنیادی شعبوں کو بھی مفلوج کر دیتے ہیں۔
اگرچہ کچھ تیاری کی گئی ہے، جیسے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ابتدائی وارننگ سسٹمز، لیکن محدود آبی ذخائر، کمزور منصوبہ بندی، فنڈز کی کمی اور عوامی آگاہی کی سطح ابھی بھی خطرناک حد تک ناکافی ہے۔
پاکستان کا دریائی نظام اور سیلابی گزرگاہیں
پاکستان کا دریائی نظام بنیادی پانچ دریاؤں پر مشتمل ہے جو مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے بحیرہ عرب میں گرتے ہیں۔ دریائے ستلج بکرک سلمانکی، اسلام سے ہوتا ہوا پنجد تک پہنچتا ہے، جبکہ دریائے راوی جسار، شاہدرہ، بلوکی اور سدھنائی کے راستے گزر کر اپنے بہاؤ کو جاری رکھتا ہے۔
دریائے چناب مرالہ، خانکی، قاددرآباد اور تریموں سے ہوتے ہوئے پنجند تک پہنچتا ہے اور دریائے جہلم منگلا سے شروع ہو کر رسول، تریموں اور پنجند سے ہوتا ہوا سندھ میں شامل ہوتا ہے۔
دریائے سندھ تربیلا سے شروع ہو کر کالا باغ، چشمہ، تونسہ، کوٹ مٹھن، گدو، سکھر اور کوٹری سے گزر کر بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ اس میں دریائے کابل بھی شامل ہے۔ باقی دریا پنجند سے ہوتے ہوئے کوٹ مٹھن، گدو، سکھر اور کوٹری تک پہنچ کر اپنے سفر کا اختتام کرتے ہیں۔
یہ تمام دریا پاکستان کے اہم آبی ذرائع ہیں اور ان کی سیلابی گزرگاہیں ہر سال بڑے پیمانے پر سیلابی اثرات مرتب کرتی ہیں۔
پاکستان میں پانی کا بحران اور ڈیموں کی بڑھتی ہوئی ضرورت
موسمیاتی تبدیلیوں، آبادی میں اضافہ اور پانی کی قلت جیسے چیلنجز کے پیش نظر، پاکستان میں ڈیمز کی اہمیت ماضی سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔
تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیموں نے ملک کی زرعی معیشت اور توانائی کی ضروریات کو سہارا دیا، لیکن اب نئے حالات کے تقاضے مختلف ہیں۔
شدید بارشوں، گلیشیئرز کے پگھلنے اور خشک سالی جیسے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے نئے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے۔ یہ نہ صرف سیلابی پانی کو قابو میں رکھنے بلکہ زراعت اور شہری آبادیوں کو محفوظ بنانے میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی ممکنہ خلاف ورزی اور ڈیموں کی یکطرفہ تعمیر نے پاکستان کی آبی سلامتی کو مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
پانی کے ضیاع کو روکنے، جدید آبپاشی نظام اپنانے اور زیرِ زمین آبی ذخائر کو بحال کرنے کے لیے فوری، مربوط اور فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔
ڈیمز کی ضرورت اور سیاسی مخالفت
پاکستان ایک زرعی معیشت ہے جس کا انحصار پانی پر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، ملک میں ہر بڑے آبی منصوبے کو سیاسی مخالفت، علاقائی تعصبات اور عدم اعتماد کا سامنا رہا ہے۔
کالا باغ ڈیم ایک بڑی مثال ہے جسے ماہرین نے ضروری اور قابلِ عمل قرار دیا، لیکن سیاسی مفادات اور بین الصوبائی اختلافات کے باعث منصوبہ التوا کا شکار رہا۔
یہی رویہ پاکستان کو ایک ایسے بحران کی جانب دھکیل رہا ہے، جس کے اثرات صرف معیشت تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ قومی بقا کے مسئلے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
اگر پاکستان نے اب بھی دانشمندی اور اتفاقِ رائے سے فیصلے نہ کیے تو آنے والے برسوں میں سپر فلڈز صرف قدرتی آفات نہیں بلکہ ناقص حکمرانی کا نتیجہ تصور کیے جائیں گے۔