پاکستان کے مختلف علاقے ایک بار پھر شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہیں اور سب سے زیادہ متاثر وہ آبادیاں ہو رہی ہیں جو دریا کے کنارے واقع ہیں۔ انہی علاقوں میں چند سال قبل ماحولیاتی تحفظ اور جدید شہر کے وعدوں کے ساتھ راوی اربن منصوبے کا آغاز ہوا تھا، مگر آج یہ منصوبہ خود کئی سوالات کی زد میں ہے۔
گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان نے دو بڑے سیلاب2010 اور 2022 کا سامنا کیا، جن میں مجموعی طور پر 3500 سے زائد افراد جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔ ہر بار سب سے زیادہ نقصان انہی لوگوں کو ہوا جو دریا کے قریب آبی گزرگاہوں کے آس پاس آباد تھے۔
رواں سال بھی صورتحال ماضی سے مختلف نہیں، دریائے راوی، ستلج اور چناب کے کنارے بسنے والے افراد حالیہ سیلاب کے پیش نظر نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ دریائے راوی کی صورتحال خاص طور پر خطرناک ہے، جہاں پانی نے درجنوں بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
راوی سٹی منصوبہ: وعدے، دعوے اور حقیقت
آج سے پانچ برس قبل دریائے راوی کے کنارے سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ”راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ (روڈا) کے قیام کے ساتھ ایک نئے شہر کی بنیاد رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ منصوبے کا مقصد نہ صرف ماحولیاتی بہتری اور سیلاب سے تحفظ تھا بلکہ اسے پاکستان کا پہلا ”گرین اور سمارٹ سٹی“ قرار دیا گیا تھا۔
عمران خان نے 2022 میں ایک ویڈیو پیغام اور سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ دریائے راوی سکڑ کر گندے نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے، لہٰذا اس کے اطراف جدید شہر بسانا وقت کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق راوی سٹی 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے 1 کروڑ 50 لاکھ افراد کو آباد کرنے کی صلاحیت رکھے گا اور یہاں دنیا کا سب سے بڑا واٹر فرنٹ بھی تعمیر کیا جائے گا۔
تاہم اس پراجیکٹ پر دیگر سیاسی جماعتوں نے تنقید کی تھی اور خاص طور پر کسانوں نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی تھی اور اس کے خلاف وہ عدالت جا پہنچے تھے۔ کسانوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روڈا کے سرکاری اہلکار ان کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لاہورہائی کورٹ نے کسانوں کے مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے منصوبے پر کام روکنے کا حکم جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ منصوبہ ماحولیاتی اثرات کے جامع تجزیے کے بغیر شروع کیا گیا تھا جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
راوی منصوبے پر سوشل میڈیا پر بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ جہاں کچھ صارفین نے اسے پاکستان کے شہری مستقبل کے لیے اہم قرار دیا، وہیں بہت سے لوگوں نے اسے ”سیاسی اور مالی مفادات کا کھیل“ قرار دیا۔
صحافی ماجد نظامی نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہاں فلیگ شپ پروگرام راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی کون کون سی زمینیں سیلاب کی نذر ہو رہی ہیں، اس پر موجودہ و سابقہ حکومتیں خاموش ہیں، کیونکہ اس میں سب شریک ہیں۔
نجی ٹی وی کے ایک پروگرام کی میزبان ابصا کومل کا کہنا ہے کہ سیاسی لیڈران اور دیگر فیصلہ ساز ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے کی سمجھ نہیں رکھتے یا دانستہ طور پر نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ دور اندیشی کی کمی ہے جو تمام فیصلہ سازی میں نظر آتی ہے۔
ابصا کومل کے مطابق راوی کے اطراف زرعی زمین پر بنائی ہاوسنگ سوسائٹیز گئی روڈا کی عمران خان رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کی طرح تشہیر کرتے رہے، موجودہ ن لیگی حکومت کی وزیراعلی مریم نواز نے روڈا پراجیکٹ میں آنے والی کچی آبادیوں کو منتقل کرنے کا ہی حکم دے دیا تاکہ پروجیکٹ آگے بڑھے اور پھر صحافیوں کو پلاٹ دیے۔
انھوں نے ’ایکس‘ پر اپنی ٹوئیٹ میں کہا کہ اس مسئلے پر صرف چند لوگوں نے آواز اٹھائی جیسا کہ صحافی بینظیر شاہ موحولیاتی ماہرین اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم جنہوں نے روڈا کے خلاف 25 جنوری 2022 کو فیصلہ دیا کہ “کوئی ماسٹر پلان موجود نہیں ،زمین کا حصول غیر قانونی ، ماحولیاتی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہوئی۔“
سرکاری ٹی وی چینل (پی ٹی وی) نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ایکس‘ پر ایک ویڈیو شئیر کی جس میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ دریائے راوی کے کنارے آباد لاہور کو بھی یوکو ہاما کی طرز پر ترقی دینا چاہتے ہیں۔
اگست 2025 کے آخری ہفتے میں دریا کنارے آبادیاں ایک بار پھر زیرِ آب آ چکی ہیں تو یہ سوال دوبارہ کھڑا ہوتا ہے کیا راوی اربن منصوبہ واقعی ماحولیاتی تحفظ کے لیے تھا؟ اگر ہاں تو پانچ سال بعد بھی دریا کے آس پاس کے لوگ کیوں نقل مکانی پر مجبور ہیں؟ اور اگر نہیں تو کیا یہ محض زمینوں کی بندربانٹ اور سرمایہ کاری کے پردے میں ایک سیاسی تجربہ تھا؟
سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے مکینوں کے لیے یہ تمام وعدے اب محض الفاظ محسوس ہوتے ہیں۔ انہیں آج فوری تحفظ، بحالی اور انصاف کی ضرورت ہے نہ کہ بلند و بانگ دعوے جو ہر بار پانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔