تھائی لینڈ کی آئینی عدالت نے وزیر اعظم پیتونگاترن شیناوترا کو قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کے الزام پر عہدے سے برطرف کر دیا، وہ صرف ایک سال ہی اقتدار میں رہ سکیں، عدالتی فیصلہ مشکلات کا شکار شیناواترا سیاسی خاندان کے لیے ایک اور تباہ کن دھچکا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پیتونگاترن شیناوترا، جو تھائی لینڈ کی کم عمر ترین وزیرِاعظم تھیں، اب شیناواترا خاندان سے تعلق رکھنے والی یا ان کی حمایت یافتہ چھٹی ایسی وزیراعظم بن گئی ہیں جنہیں فوج یا عدلیہ نے برطرف کیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پیتونگاترن شیناوترا نے جون میں ہونے والی ایک لیک شدہ ٹیلی فون کال میں اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کی، اس ٹیلی فون کال میں وہ کمبوڈیا کے سابق رہنما ہُن سین کے موقف کو تسلیم کرتی نظر آئیں جبکہ اس وقت دونوں ممالک مسلح سرحدی تنازع کے دہانے پر تھے۔
یہ ریکارڈنگ خود ہن سین نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر جاری کی، جس کے بعد ملک میں سیاسی ہلچل مچ گئی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پیٹنٹارن نے کمبوڈیا کے ساتھ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ایسا رویہ اپنایا جو قومی مفاد کے خلاف تھا، جس سے نہ صرف ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا بلکہ عوامی اعتماد بھی متزلزل ہوا۔
صرف ایک سال تک اقتدار میں رہنے والی پیتونگاترن، جو تھائی لینڈ کی سب سے کم عمر وزیراعظم تھیں، چھٹی شخصیت بن گئی ہیں جنہیں فوج یا عدلیہ کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا۔ وہ سابق وزیراعظم تھاکسن شیناوترا کی بیٹی اور سیاسی جانشین سمجھی جاتی تھیں۔
اب پارلیمنٹ میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کا عمل شروع ہوگا، جو ممکنہ طور پر طویل اور غیر یقینی ہو سکتا ہے، کیونکہ پیو تھائی پارٹی کو کمزور اکثریت اور سیاسی اتحاد کو برقرار رکھنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
برطرفی کے بعد پریس کانفرنس میں پیٹنٹارن نے کہا ”میرا مقصد ہمیشہ عوام، چاہے وہ فوجی ہوں یا عام شہری، کی زندگیوں کی حفاظت کرنا تھا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ تشدد سے پہلے حالات کو سنبھالا جا سکے۔“
یہ عدالتی فیصلہ نہ صرف پیتونگاترن کی سیاسی زندگی کا موڑ ہے بلکہ شیناوترا خاندان کے لیے ایک اور دھچکا ہے، جسے گزشتہ دو دہائیوں میں بارہا فوجی بغاوتوں اور عدالتی فیصلوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔