بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی چھوڑے جانے اور موسلادھار بارشوں کے باعث پنجاب کے 3 بڑے دریاؤں راوی، چناب اور ستلج میں سیلاب سے صورتحال سنگین ہوگئی جس کے سبب ہزاروں دیہات زیر آب آنے سے سیکڑوں مویشی ہلاک اور کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں جبکہ مختلف حادثات میں 33 افراد جاں بحق اور لاکھوں متاثر ہوئے ہیں۔
دریائے راوی، چناب، ستلج اور دیگر دریاؤں سے آنے والے سیلابی پانی کے تیز بہاؤ نے دریا کے گرد آباد بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیلابی پانی گھروں میں داخل ہونے سے جہاں شہریوں کو مالی نقصان اٹھانا پڑا وہیں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے کسان بھی پریشان ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سیلابی پانی نے دریا کے گرد آباد غیر قانونی بستیوں کو متاثر کیا ہے۔ اس سے قبل 2022 کے سیلاب میں بھی بڑے پیمانے پر وہ لوگ متاثر ہوئے تھے جو آبی گزر گاہوں کے کنارے کے قریب آباد تھے۔
سندھ میں ممکنہ سیلاب، صوبائی حکومت کتنی تیار؟
پنجاب کے مختلف دریاؤں اور شہروں میں شدید سیلابی صورتحال کے بعد سندھ حکومت نے صوبے میں ممکنہ سیلاب کے خدشے کے پیش نظر تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ صوبائی وزیر آبپاشی جام خان شورو کے مطابق دریائے سندھ کے بندوں کی 24 گھنٹے نگرانی کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جبکہ مختلف وزرا کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔
جام خان شورو نے بتایا کہ پنجاب کے دریاؤں کا پانی آئندہ دو روز میں پنجند پہنچے گا، جہاں سے اندازہ لگایا جا سکے گا کہ سندھ میں سیلاب کی صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی۔ ان کے مطابق اس وقت گدو اور سکھر بیراج پر تین، تین لاکھ کیوسک کے قریب پانی کا بہاؤ ہے، جو گنجائش سے کم ہے، تاہم اگر بڑے پیمانے پر پانی آیا تو انخلا کی حکمت عملی پر فوری عمل کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی میں اعلیٰ سطحی اجلاس بھی ہوا جس میں صوبے میں سیلاب سے متعلق تیاریاں کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں متعلقہ اداروں کو چوکس رہنے اور مانیٹرنگ پلان پر عمل یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی۔
وزیر توانائی ناصر حسین شاہ اور جام خان شورو نے سکھر بیراج پر مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت مکمل طور پر الرٹ ہے اور سیلابی خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جا چکے ہیں۔ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اگر ایک ہی رات میں سات سے آٹھ لاکھ کیوسک پانی آیا تو کسی بھی صوبے کے لیے سنبھالنا مشکل ہوگا، تاہم فی الحال سندھ میں صورتحال قابو میں ہے۔
صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ متاثرہ افراد کے لیے ٹینٹس، جیری کینز اور مچھر دانیوں کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ ان کے مطابق تمام ضلعی انتظامیہ کو الرٹ کر دیا گیا ہے اور منتخب نمائندوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے حلقوں میں موجود رہیں۔
چیف سیکریٹری سندھ آصف حیدر شاہ نے بھی صوبے میں 24 گھنٹے مانیٹرنگ کے لیے کنٹرول روم قائم کرنے اور تمام محکموں کی چھٹیاں منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلابی صورتحال میں عوام اور مال مویشیوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دی جائے گی۔ صوبے بھر میں 188 ریسکیو کشتیاں دستیاب ہیں جبکہ پی ڈی ایم اے اور ریسکیو 1122 کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کشتیوں، خیموں اور ادویات سمیت تمام وسائل کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو فراہم کریں۔
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری اعلامیہ کے مطابق 4 اور 5 ستمبر کو گدو اور سکھر بیراج کے مقامات پر بہت اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے، جس کے پیش نظر صوبائی حکومت اور تمام اداروں کو چوکس رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
سندھ میں سیلاب سے 16 لاکھ افراد متاثر ہونے کا خدشہ
صوبہ سندھ میں حکام نے خبردار کیا ہے کہ دریائے راوی، ستلج اور چناب میں آنے والے انتہائی اونچے درجے کے سیلابی ریلے پنجاب میں تباہی مچانے کے بعد آئندہ دو سے تین روز میں سندھ میں داخل ہو سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں صوبے کے 16 لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل ڈھائی لاکھ سے زائد خاندان متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) کے مطابق یہ سیلابی پانی ہیڈ سدھنائی اور محمد والا سے ہوتا ہوا پنجند پہنچے گا اور پھر گدو بیراج کے راستے سندھ کی حدود میں داخل ہوگا۔ ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے نے انکشاف کیا کہ ملتان اور مظفرگڑھ کے شہری علاقوں کو بچانے کے لیے محمد والا کے قریب بند میں شگاف ڈالنے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے کیوں کہ شدید ریلے سے شیر شاہ پل کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
ادھر سندھ کے وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ممکنہ سیلاب کے باعث صوبے کے 1651 دیہات اور 167 یونین کونسلز متاثر ہو سکتی ہیں۔ ان کے مطابق 16 لاکھ 50 ہزار افراد پر مشتمل 2 لاکھ 73 ہزار خاندان اس صورتحال سے براہ راست متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
شرجیل انعام میمن نے بتایا کہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے 192 ریسکیو کشتیاں اور موبائل ہیلتھ یونٹس فعال کر دیے گئے ہیں، جبکہ جانوروں کے تحفظ کے لیے 300 کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے سیلابی صورتحال کی نگرانی کے لیے ایمرجنسی مانیٹرنگ سیل بھی قائم کر دیا ہے جو چوبیس گھنٹے فعال رہے گا۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی ہفتے کو سیلابی خطرے کی نگرانی کے لیے مقرر وزرا سے رابطہ کیا اور ہدایت کی کہ دریائے سندھ کے دائیں اور بائیں کناروں کے بندوں اور نہری نظام کی کڑی نگرانی کی جائے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے۔
سندھ میں سیلاب: کچے کے علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی شروع
سندھ میں سیلاب کی پیشگوئی کے پیشِ نظر شمالی سندھ کے اضلاع گھوٹکی، خیرپور اور کشمور کے کچے کے علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے جبکہ لوگ کشتیوں پر سامان لاد کر پکے کی طرف منتقل کر رہے ہیں۔
سندھ کے محکمہ آبپاشی کے مطابق، دریائے سندھ میں اس وقت تک صورتحال معمول کے مطابق ہے۔ گڈو بیراج پر اپ سٹریم سے پانی کی آمد 322819 کیوسک جبکہ ڈاؤن سٹریم میں اخراج 307956 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اسی طرح، سکھر بیراج پر اپ سٹریم سے پانی آمد 303480 کیوسک اور ڈاؤن سٹریم میں اخراج 252110 کیوسک موجود ہے۔
دریائے سندھ پر قائم آخری بیراج کوٹری بیراج پر اپ سٹریم سے پانی کی آمد 273844 کیوسک جبکہ ڈاؤن سٹریم میں اخراج 244739 کیوسک نوٹ کیا گیا ہے۔
اس سے قبل صوبائی وزیر محمد بخش مہر نے گھوٹکی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اگر پانی کی سطح 7 لاکھ سے تجاوز کرتی ہے تو گھوٹکی اور اوباوڑو تحصیل میں ایک لاکھ سے زائد افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
سندھ کے محکمہ آبپاشی کے مطابق، اس وقت پنجاب میں پنجند کے مقام پر 8 لاکھ 82 ہزار کیوسکس سے زائد پانی موجود ہے۔
صوبائی وزیر جام خان شورو کا کہنا ہے کہ پنجند سے کتنا پانی دریائے سندھ میں داخل ہوتا ہے اس حساب سے سیلابی صورتحال کا تعین ہوگا۔
سندھ میں سیلاب: سندھ پولیس کو الرٹ رہنے کی ہدایت
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے ممکنہ سیلاب کے خدشے کے پیش نظر سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کی پولیس کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نشیبی علاقوں کے مکینوں کو بروقت ریسکیو کیا جائے اور پولیس وفاقی و صوبائی اداروں کے ساتھ مکمل رابطے میں رہے۔
آئی جی سندھ نے ہدایت دی کہ دریائے سندھ اور برساتی نالوں کے اطراف رہنے والے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی حکمت عملی تیار کی جائے اور تھانوں کی سطح پر عوام کو سیلابی صورتحال اور ریسکیو اقدامات سے آگاہ رکھا جائے۔
دریائے سندھ میں شدید سیلاب کا خدشہ، این ڈی ایم اے خبر دار کردیا
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے دریائے سندھ میں شدید سیلاب سے خبردار کر دیا ہے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق تینوں مشرقی دریاؤں میں موجود شدید سیلابی صورتحال کے باعث نشیبی دریائے سندھ میں بھی خطرناک سیلابی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق 3 سے 4 ستمبر کے دوران 9 سے ساڑھے 9 لاکھ کیوسک تک کے ریلے پنجند ہیڈ ورکس سے گزریں گے۔ گڈو بیراج پر 5 سے 6 ستمبر کے دوران 8 سے 11 لاکھ کیوسک پانی کا بہاؤ متوقع ہے۔ اگر بند توڑ کر پانی کا رخ موڑ دیا گیا تو گڈو بیراج پر بہاؤ کم ہو کر ساڑھے 7 سے 9 لاکھ کیوسک تک رہ سکتا ہے۔
این ڈی ایم اے نے مزید بتایا کہ سکھر بیراج پر 6 سے 7 ستمبر کے دوران 8 سے 11 لاکھ کیوسک پانی آنے کا امکان ہے، جب کہ کوٹری بیراج میں 8 سے 9 ستمبر کے دوران 8 سے 10 لاکھ کیوسک پانی کا بہاؤ متوقع ہے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق 12 سے 13 ستمبر تک دریائے سندھ کے نشیبی علاقوں میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے، جس کے باعث زرعی زمینیں، قریبی دیہات، آبادیاں اور بنیادی ڈھانچہ متاثر ہو سکتا ہے۔
انتظامیہ نے متعلقہ اداروں اور عوام کو الرٹ رہنے اور حفاظتی اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے تاکہ ممکنہ جانی و مالی نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔
2010 اور 2022 کے سپر فلڈ میں کیا ہوا تھا؟
2010 کا سپرفلڈ پاکستان مین اب تک کی تاریخ کا سب سے تباہ کن سیلاب ثابت ہوا تھا۔ فیڈرل فلڈ کمیشن (ایف ایف سی) کی رپورٹ کے مطابق اس سیلاب میں لگ بھگ 2 ہزار افراد جاں بحق اور ایک لاکھ 60 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا تھا۔
اس آفت نے ملک کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس میں انتظامی سہولتیں مفلوج اور بحالی کے عمل میں شدید رکاوٹیں پیش آئیں۔ سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو زیرِ آب کیا، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، زرعی زمینیں برباد، انفراسٹرکچر تباہ ہوا اور اربوں روپے کا نقصان ہوا۔
این ڈی ایم کے کے تخمینے کے مطابق ملک بھر میں تقریباً دو کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا، جہاں لاکھوں مکانات، پل اور سڑکیں تباہ ہوئیں۔ خیبر پختونخوا میں ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی، جب کہ سندھ، بلوچستان، اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر بھی بری طرح متاثر ہوئے تھے۔
2010 کے سپر فلڈ کے 12 سال بعد 2022 میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں دوبارہ شدید سیلاب آیا، جس نے سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، اور جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع کو شدید متاثر کیا۔
این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق اس سیلاب نے تین کروڑ 30 لاکھ افراد کو متاثر کیا، جن میں خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے صوبے شامل تھے۔
سیلاب کے بعد حکومت کی جانب سے لگائے گئے تخمینے کے مطابق ایک ہزار 739 افراد کی ہلاکتیں ہوئیں اور 14.9 بلین ڈالر کا مالی نقصان اور 15.2 بلین ڈالر کا اقتصادی نقصان پہنچا۔ 2022 کے سیلاب میں ملک کے 116 اضلاع متاثر ہوئے۔
محکمہ موسمیات اور ماہرین کے مطابق، 2010 کا سیلاب ”دریائی سیلاب“ تھا، جب کہ 2022 میں آنے والے سیلاب کو ”فلیش فلڈ“ یا تیز اور مسلسل بارشوں کی وجہ سے زمین کی گنجائش سے زیادہ پانی کا بہاؤ قرار دیا گیا۔
اس تباہ کن صورتحال کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، عالمی شہرت یافتہ اداکارہ انجیلینا جولی نے بھی سندھ کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں اور آگاہی مہمات میں تعاون فراہم کیا۔
2022 کا سیلاب بھی ملک کی تاریخ کے بڑے قدرتی آفات میں سے ایک تھا، جس نے 2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد دوبارہ ملک کو سنبھلنے کا موقع کم دیا۔
پاکستان کے مختلف دریاؤں اور ڈیمز میں سیلاب کی کیا صورتحال ہے؟
پاکستان کے مختلف دریاؤں اور ڈیمز میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جبکہ کچھ مقامات پر بہاؤ معمول کے مطابق ہے۔
انڈس: تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد 170,000 کیوسک اور اخراج 155,200 کیوسک ہے اور سطح نارمل ہے۔ کالا باغ، چشمہ اور تونسہ میں بھی پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے۔ گڈو بیراج میں درمیانے درجے کا سیلاب جبکہ سکھر اور کوٹری میں کم سطح رپورٹ ہوئی ہے۔
کابل: نوشہرہ میں پانی کی آمد و اخراج 30,000 کیوسک کے ساتھ صورتحال نارمل ہے۔
جہلم: منگلا ڈیم میں پانی کی آمد 52,000 کیوسک اور اخراج 8,000 کیوسک ہے، سطح نارمل ہے۔ راول میں بھی معمولی بہاؤ جبکہ ہیڈ مرالہ اور ہیڈ خانکی میں درمیانی سطح نوٹ کی گئی۔
چناب: قیوم آباد میں درمیانے درجے کا سیلاب ہے جبکہ تریموں اور پنجند میں دریا معمول کے مطابق بہہ رہا ہے۔
راوی: جسڑ میں درمیانے درجے کا سیلاب ہے جبکہ شاہدرہ میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ بلوکی میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ سدھنائی میں صورتحال معمول کے مطابق ہے۔
ستلج: گنڈا سنگھ والا میں انتہائی اونچے درجے جبکہ ہیڈ سلیمانکی میں 138,058 کیوسک پانی کے ساتھ اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ ہیڈ اسلام میں نچلے درجے کا سیلاب نوٹ کیا گیا ہے۔

ڈیمز
-
تربیلا ڈیم کی موجودہ سطح 1550.05 فٹ (0.05 فٹ اضافہ) ہے
-
منگلا ڈیم 1224.25 فٹ (0.15 فٹ اضافہ) پر نارمل حد میں برقرار ہے