ٹوٹا پھوٹا کراچی

کراچی پاکستان کا صنعتی شہر ہے اور اسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے لیکن اب یہ روشنی زیادہ تر آسمان پر یا عوام کے دلوں میں امید کی ایک کرن کی صورت میں رہ گئی ہے۔ تمام شہر رنگ برنگے شاپر اور سیوریج کے پانیوں میں چمکتا دمکتا رہتا ہے۔

کراچی کے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اگر اس پر کتاب لکھی جائے تو ”انسائیکلوپیڈیا آف کراچی پرابلمز“ کے نام سے دس جلدیں چھپ سکتی ہیں۔

کراچی میں کچرا ہر جگہ ہر مقام پر موجود ہے، گلی محلوں میں، پارکوں میں، سڑکوں کے کناروں
اور ساحل سمندر پر حد نگاہ کچرے کا ڈھیر موجود ہے۔ لیکن حکومت سمجھتی ہے کہ عوام کے دماغ میں کچرا بھرا ہوا ہے اور ان کا یہ سمجھنا غلط بھی نہیں۔ اسی لیے میئر صاحب فرما رہے ہیں کہ ”گلی محلوں سے کچرا اٹھانا ہماری ذمہ داری نہیں ـ“

مقولہ ہے کہ ’’مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے“ ڈر ہے کہ کہیں اس کچرے کو بھی قومی خزانے میں شامل نہ کرلیا جائے۔ ویسے بھی یہاں کے ماحول میں کچرا اتنا ایڈجسٹ ایبل ہے کہ جہاں ڈالا جائے فوراً ماحول کا حصہ بن جاتا ہے۔

کراچی کی سڑکوں کی حالت بھی ایسی ہے جیسے مرض الموت میں مبتلا ہو، جگہ جگہ چکن پوکس سے روشنی پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایک کھڈا ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا لپک آتا ہے۔ حرکتِ قلب بڑھ جاتی ہے دل بے ساختہ پکار اٹھتا ہے:

کتنا سفر طویل ہے حرکت کے نام پر

کھڈوں کی اک قطار ہے عبرت کے نام پر

کراچی میں گاڑی چلانا موت کے کنوئیں میں گاڑی چلانے کے مترادف ہے۔ ڈرائیور کھڈوں کو بچاتے ہوئے اتنے زاویوں میں گھماتا ہے کہ رقاصائیں بھی دانتوں میں انگلی داب لیں۔

برسات میں تو یہ سڑکیں ایسی چھب دکھائی دیتی ہیں کہ دلہن بھی کیا شرمائے گی۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کی مصداق یہ سوئمنگ پول خاص کر کراچی کی سوغات ہیں اور اگر ”زیادہ بارش ہو تو زیادہ پانی آ تا ہے“ اور آخر کار شہر ’مچھر جھیل‘ بن جاتا ہے۔

کراچی کی ٹریفک دیکھ کر لگتا ہے جیسے پورے شہر کے لوگ ایک ساتھ اپنی گاڑیاں لے کر نکل آئے ہوں اور ہر بندہ سمجھتا ہے کہ اس کی گاڑی ہی ’ایمبولینس‘ ہے جسے سب راستہ دیں۔

کراچی میں ٹریفک سگنل توڑنا بالکل ایسے ہے جیسے صبح اٹھ کر چائے پینا۔ ایک عام سی بات!
یہاں تو بعض لوگ سگنل پر رکتے ہی نہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں ’رکنا ایمان کے خلاف ہے۔‘

رکشہ اور موٹر سائیکل سوار ٹریفک کے ”نینجا واریرز“ ہیں۔ وہ کسی بھی گاڑی کے بیچ سے ایسے نکل جاتے ہیں جیسے سوئی کے ناکے سے دھاگا۔ اور اگر آپ نے ہلکا سا ہارن بھی دے دیا تو وہ آپ کو ایسے دیکھیں گے جیسے آپ نے ان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر دیا ہو۔

ٹینکر اور ڈمپر کے تو کیا ہی کہنے ہمہ وقت زمین کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے تیار رہتے ہیں یہ کراچی شہر کے ڈان ہیں عوام کا ان سے ہمیشہ ٹاکرا رہتا ہے اور سرکار سے احتجاج؛

ڈمپر بھی مار کر ہمیں رکتے نہیں ہیں اب

کب تک چلے گا دادِ شجاعت کا سلسلہ

کراچی کے مسائل کی سب سے بڑی ”ہیروئن“ سندھ حکومت ہے، جو ہر بار دعویٰ کرتی ہے کہ شہر کے مسائل حل کر دیے ہیں۔ کچرا اٹھا دیا گیا، ٹریفک کا نظام بہتر کردیا اور سڑکیں بنوا دیں۔ یہ دعوے حقیقت میں صرف پریس کانفرنس تک محدود ہوتے ہیں اور عوام اس مضحکہ خیزی پر دل و جان سے حیرانی کا اظہار کرتے ہیں۔

دعوے بھی ان کے خوب ہیں حیران ہے جہاں

دیکھے ہیں سبز باغ کرامت کے نام پر

کراچی کی سڑک پر گڑھے ہوں یا بارش کا کھڑا پانی، وزیر حضرات فوراً فرما دیتے ہیں: ”یہ سب میڈیا کا پروپیگنڈا ہے!“ شاید ان کے نزدیک میڈیا کیچڑ اچھالتا ہے اور گند ایک دوسرے کے سر ڈالتا ہے۔

اب یہ بھی سچ ہے کہ کچھ قصورعوام کا بھی ہے۔ کچرا اٹھانے والا آتا نہیں، مگر عوام بھی کچرا اٹھا کر ڈسٹ بن تک لے جانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ گاڑیاں کھڑی کرنے کا انداز ایسا کہ گلی بھی بند اور پڑوسی بھی تنگ۔ ٹریفک میں ”لین“ کا تصور ویسے ہی ہے جیسے سانپ اور سیڑھی کا کھیل۔

ہم نے یہی سنا ہے کہ بارش رحمت ہے لیکن کراچی میں بارش آسمانی آفت یا حکومتی کارکردگی کا ٹیسٹ بن جاتی ہے۔ بارش شروع ہوتے ہی سڑکیں دریا بن جاتی ہیں۔ گاڑیاں کشتیوں میں بدل جاتی ہیں اورعوام گھٹنوں گھٹنوں پانی میں تصویریں اور ویڈیوز بنا کر دنیا کو بتاتے ہیں کہ ”ہم زندہ ہیں، ابھی تک ڈوبے نہیں۔“

حکومت اس وقت عوام کو حوصلہ دیتی ہے، ”بارش اللہ کی رحمت ہے۔“ لیکن عوام یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ

کیچڑ میں کیوں عوام ہے کھڈوں میں کیوں عوام

محنت ہے سب عوام کی وحشت میں کیوں عوام

اگر کوئی پوچھے کہ کراچی والے دنیا کے سب سے صابر لوگ کیوں ہیں تو جواب یہ ہے کہ یہ کچرے کے ڈھیر کے ساتھ رہتے ہیں۔ ٹریفک کے اژدہام میں ایسے پھنسے رہتے ہیں جیسے جال میں پھنسی مچھلی۔ بارش کے پانی میں غوطے لگاتے ہوئے آفس پہنچتے ہیں، حکومت کے بلند و باگ دعوے سنتے ہیں۔ پھر بھی صبح سویرے اٹھ کر کاروبارِ زندگی میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ مسائل بہت ہیں، مگر ان کا حل بھی موجود ہے۔ اگر حکومت تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر ایمان داری سے کام کرے، کچرا اٹھانے اور پھینکنے کا نظام بہتر بنایا جائے، ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کرایا جائے، سڑکوں کی مرمت صرف بارش کے بعد نہیں بلکہ بروقت کی جائے۔

اگر یہ سب ہو جائے تو شاید کراچی دوبارہ روشنیوں کا شہر بن سکے اور دنیا اسے ”کچرے کا ڈھیر“ نہیں بلکہ ”خوابوں کا شہر“ کہے۔

کراچی کی حالت پر جتنا بھی مذاق اڑا لیں حقیقت یہ ہے کہ یہ شہر پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہاں روزی کمانے کے لیے دوسرے شہروں سے لاکھوں لوگ آتے ہیں، وہ بھی اس شہر کو اپنا شہر سمجھیں۔ اگر احساسِ ذمے داری پیدا ہو جائے اور مفاد پرستی سے گریز کیا جائے تو یہ شہر دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوسکتا ہے۔

لیکن تب تک… کھڈوں سے بچتے ہوئے، کچرے کو سلام کرتے ہوئے اور ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہمیں یہی کہنا ہوگا۔

”کراچی والو! تم زندہ ہو تو سمجھ لو اللہ کی خاص رحمت ہے۔“

نوٹ: لکھاری کی ذاتی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Similar Posts