چین، شمالی کوریا اور روس کے رہنماؤں نے بدھ کے روز بیجنگ میں دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہونے والی فوجی پریڈ کے دوران شانہ بشانہ کھڑے ہو کر طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا جب کہ سڑکوں پر جدید جنگی ساز و سامان اور ہزاروں فوجیوں کی پیش قدمی نے دنیا کو واضح پیغام دیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق دو روز قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں خوشگوار ماحول میں ہاتھ ملاتے اور مسکراتے نظر آئے۔ ان ملاقاتوں کو ماہرین امریکا اور مغربی اتحادیوں کے لیے ایک چیلنجنگ اور کسی حد تک مخالفانہ پیغام کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
امریکا کے لیے پیغام
یہ اجتماعات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو کئی روایتی کرداروں سے پیچھے ہٹا لیا ہے اور تجارتی تعلقات میں ٹیرف کے ذریعے نئے تنازعات کھڑے کر دیے ہیں۔ ٹرمپ نے خود بھی سوشل میڈیا پر چین کے صدر شی جن پنگ کو مخاطب کرتے ہوئے طنزیہ پیغام دیا کہ “براہ کرم ولادیمیر پیوٹن اور کم جونگ اُن کو میرا پیغام دیں، جب آپ امریکا کے خلاف سازش کر رہے ہوں۔”
چین کے عزائم
چین اندرونی مسائل جیسے معاشی بحران، صنفی عدم مساوات اور تائیوان کے ساتھ تنازع کے باوجود خود کو عالمی سطح پر ابھرتی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ٹیمپل یونیورسٹی جاپان کے پروفیسر جیف کنگسٹن کے مطابق “یہ پریڈ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ٹرمپ کی ناکام سفارت کاری کو نمایاں کرتی ہے۔ شی جن پنگ نے اس پریڈ کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ چین مغرب کے متبادل قیادت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
روس کا چین پر انحصار
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے لیے بیجنگ میں عالمی رہنماؤں کے ساتھ کھڑا ہونا مغرب کی پابندیوں کے باوجود اپنی سفارتی حیثیت بحال کرنے کی ایک بڑی کوشش ہے۔ چین روس کے لیے تجارتی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے سب سے اہم سہارا بنتا جا رہا ہے۔
کارنیگی روس یوریشیا سینٹر کے ڈائریکٹر الیگزینڈر گابیو نے کہا کہ “روس چین کی اُس صلاحیت سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے جس کے ذریعے وہ دوہری نوعیت کی مصنوعات اور ٹیکنالوجی فراہم کر کے مغربی پابندیوں کو نظرانداز کرتا ہے۔ چین روس کے لیے سب سے بڑا آمدنی کا ذریعہ بن چکا ہے جو پیوٹن کی جنگی مشین کو رواں رکھے ہوئے ہے۔”
شمالی کوریا کی حکمت عملی
شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن کا دورہ بیجنگ روس کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور چین کے ساتھ نازک تعلقات کو سنبھالنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے روسی افواج کی مدد کے لیے فوجی سازوسامان اور دستے بھیجے ہیں۔
کم نے پیوٹن سے کہا کہ “اگر روس اور اس کے عوام کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے تو میں اسے برادرانہ ذمہ داری سمجھوں گا۔” یہ دورہ کم جونگ ان کی جانب سے 2011 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار کسی کثیرالجہتی سفارتی تقریب میں شرکت ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ قدم شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر ممکنہ مذاکرات سے پہلے اتحادیوں کو مضبوط کرنے کی کوشش ہے۔
بھارت کا محتاط رویہ
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا یہ پہلا دورہ چین تھا، جب سے 2020 میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے بعد تعلقات کشیدہ ہوئے تھے۔ تاہم بیجنگ کی فوجی پریڈ میں ان کی غیر موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ دونوں کے درمیان بداعتمادی اب بھی برقرار ہے۔
بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت مغرب اور باقی دنیا کے درمیان ایک توازن قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں تنازع اور تجارتی مسائل کے باوجود مودی نے عندیہ دیا ہے کہ بھارت دباؤ کے آگے نہیں جھکے گا اور روس اور چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے کو تیار ہے۔
تاہم ماہرین کے مطابق مودی واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کے دروازے بند نہیں کرنا چاہتے اور مستقبل میں امریکا کے ساتھ تعاون کی گنجائش رکھنا چاہتے ہیں۔