پاکستان میں مارخور کے شکار کا سب سے مہنگا پرمٹ جاری

پاکستان نے ایک بار پھر شکار کے شوقین افراد کی توجہ حاصل کرلی۔ گلگت بلتستان میں مارخور کے شکار کا ایک پرمٹ 3 لاکھ 70 ہزار ڈالر، پاکستانی تقریباً ساڑھے 10 کروڑ روپے میں نیلام ہوا، جو دنیا بھر میں کسی بھی شکار کے پرمٹ کے لیے اب تک کی سب سے بڑی بولی ہے۔

گلف نیوز کے مطابق یہ پرمٹ بدھ کو گلگت بلتستان وائلڈ لائف اینڈ پارکس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے منعقدہ سالانہ ٹرافی ہنٹنگ نیلامی میں دیا گیا۔

نیلامی کے دوران 118 جانوروں کے شکار کے اجازت نامے پیش کیے گئے، جن میں 4 استور مارخور، 100 ہمالیائی آئی بیکس جوکہ جنگلی بکری کی ایک بڑی نسل ہے، جو ہمالیہ کے پہاڑوں میں پائی جاتی ہے اور 14 بلیو شیپ یعنی نیلی بھیڑوں کی نسل شامل ہیں۔

بلیو شیپ یا نیلی بھیڑیں بھی پہاڑی علاقوں میں رہنے والی جنگلی بھیڑ کی قسم ہے، جو زیادہ تر ہمالیہ اور قراقرم کے بلند پہاڑوں میں ہی پائی جاتی ہیں۔

مارخور کے دیگر پرمٹ بھی بھاری قیمتوں میں فروخت ہوئے، جن میں 2 لاکھ 86 ہزارڈالر(تقریبا 8 کروڑ 12 لاکھ پاکستانی روپے)، 2 لاکھ 70 ہزار ڈالر(7 کروڑ 66 لاکھ پاکستانی روپے) اور 2 لاکھ 40 ہزار ڈالر(6 کروڑ 81 لاکھ پاکستانی روپے) تک کی بولیاں شامل رہیں۔

بلیو شیپ کا سب سے مہنگا پرمٹ 40 ہزار ڈالر(تقریبا ایک کروڑ 13 لاکھ 53 ہزار ) اور آئی بیکس کا 13 ہزار ڈالر (تقریبا 37 لاکھ پاکستانی روپے) میں فروخت ہوا۔

محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق یہ پاکستان کی تاریخ اور دنیا بھر میں مارخور کے شکار کا سب سے مہنگا پرمٹ ہے۔

مقامی کمیونٹیز کا فائدہ

یہ ٹرافی ہنٹنگ پروگرام 1990 میں شروع کیا گیا تھا، جس کے تحت پرمٹ کی آمدنی کا 80 فیصد براہِ راست مقامی کمیونٹیز کو دیا جاتا ہے جبکہ 20 فیصد حکومت کے حصے میں آتا ہے۔ انہی مالی فوائد کی وجہ سے مقامی لوگ مارخور کی حفاظت کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مارخور کی نسل کو معدومی سے بچا لیا گیا ہے۔

اس وقت پاکستان میں مارخور کی تعداد 5 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) نے 2015 میں اسے ’انتہائی خطرے سے دوچار‘ کے بجائے ’کم خطرے والی‘ فہرست میں شامل کیا تھا۔

مارخور کو دنیا کے مشکل ترین شکاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے لمبے مڑے ہوئے سینگ شکاریوں کے لیے سب سے بڑی کشش ہیں۔ پاکستان میں شکار کا موسم نومبر سے اپریل تک جاری رہتا ہے اور زیادہ تر شکاری امریکا، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ سے آتے ہیں۔

ایک مقامی نمائندے کے مطابق، ’ایک مارخور کا پرمٹ ہمارے گاؤں کو اتنی آمدنی دیتا ہے جتنی کئی سال کی کھیتی باڑی سے نہیں ملتی۔ اسی لیے اب ہم مارخور کی حفاظت کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں۔ یہ ہمارا فخر اور ذریعہ روزگار ہے۔‘

Similar Posts