حکومتی بدعنوانیوں اور سوشل میڈیا پر پابندیوں کے خلاف نیپال میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، مظاہرین نے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرلیا، پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 10 افراد ہلاک جبکہ 87 سے زائد زخمی ہوگئے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق کھٹمنڈو پولیس کے ترجمان شیکھر کھنال نے صحافیوں کو بتایا، ”اب تک 10 مظاہرین کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ 87 زخمی ہیں۔ ہجوم اب بھی سڑکوں پر موجود ہے۔“
مظاہرین نے قومی پرچم لہراتے ہوئے قومی ترانہ پڑھ کر احتجاج کا آغاز کیا، جس کے بعد حکومت کی سوشل میڈیا پر پابندی اور کرپشن کے خلاف نعرے لگائے۔ احتجاج اُس وقت پرتشدد ہو گیا جب مظاہرین پارلیمنٹ کے قریب ریڈ زون میں داخل ہو گئے اور خار دار تاروں کو عبور کر کے احاطے میں داخل ہو گئے۔
رپورٹس کے مطابق پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، واٹر کینن اور ربڑ کی گولیاں استعمال کیں۔ نزدیکی سول اسپتال کی اطلاعاتی افسر رنجنا نیپال کے مطابق، ”آنسو گیس کے اثرات اسپتال تک پہنچ گئے جس سے ڈاکٹروں کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا۔ میں نے اسپتال میں ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں دیکھی۔“
حکام نے پارلیمنٹ، صدر کی رہائش گاہ اور وزیر اعظم کے دفتر سنگھ دربار سمیت کئی اہم علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ دیگر اضلاع میں بھی احتجاج کی اطلاعات ہیں۔
رپورٹس کے مطابق احتجاج اُس وقت شروع ہوا جب نیپالی حکومت نے فیس بک، یوٹیوب، واٹس ایپ اور ایکس سمیت 26 بڑی سوشل میڈیا ایپس کو رجسٹریشن نہ کرانے پر بند کر دیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق جن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی محدود کی گئی ہے ان میں ایکس، یوٹیوب، انسٹاگرام، فیس بک، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ شامل ہیں۔
دوسری جانب 24 طالب علم یوجن راجبھنداری نے کہا، ”ہم صرف سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف نہیں، بلکہ ادارہ جاتی کرپشن کے خلاف بھی آواز بلند کر رہے ہیں۔“
20 سالہ طالبہ اکشما تومروک نے کہا، ”ہم حکومت کے آمرانہ رویے کے خلاف ہیں۔ اب تبدیلی ضروری ہے، یہ ہمارے نسل کے ساتھ ختم ہونا چاہیے۔“
دریں اثنا، سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں سیاستدانوں کے بچوں کی پرتعیش زندگی کو عام نیپالیوں کی مشکلات سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔