جعلی ڈگری کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام سے روک دیا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک کام نہیں کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل بینچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو مبینہ جعلی ڈگری سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت شکایت کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔
عدالت نے سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر اوصاف علی کو عدالتی معاون مقرر کر دیا، جبکہ اٹارنی جنرل سے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر معاونت طلب کر لی گئی۔
عدالت نے یہ حکم میاں داؤد ایڈووکیٹ کی دائر کردہ کو وارنٹو رٹ پٹیشن پر دیا۔ کیس کال ہوا تو پٹیشنر عدالت میں پیش نہ ہو سکے۔ ان کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ میڈیکل ایمرجنسی کے باعث پیش نہیں ہو سکے اور آج کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔
سماعت کے دوران اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد بار کونسل کے نمائندے روسٹرم پر آ گئے اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کی تعیناتی اور انہیں بطور جج کام سے روکنے کی درخواست پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
وکلا نمائندوں نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی درخواست پر آفس اعتراضات ہیں اور جج سمیت کسی فریق کو نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ عدالت کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل سے فیصلے تک معاملہ ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا۔
عدالت کے سامنے زیر غور سوال یہ ہے کہ اگر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ہو تو کیا آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے؟
اسلام آباد بار کونسل کے رکن راجہ علیم عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ججز کے خلاف شکایت کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کو حاصل ہے اور اگر اس نوعیت کی پٹیشنز دائر ہونے لگیں تو یہ رجحان عدلیہ کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ درخواست پر اعتراضات برقرار رکھے۔
چیف جسٹس نے بار کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ آیا وہ کیس میں فریق ہیں؟ عدالت نے کہا کہ اس وقت صرف اعتراضات دیکھے جا رہے ہیں اور اگر نوٹس جاری کیا گیا تو وکلا کو سنا جائے گا۔
اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم علی گجر نے مؤقف اختیار کیا کہ بار اس معاملے میں اسٹیک ہولڈر ہے اور یہ رٹ پٹیشن قابل سماعت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک ہم نوٹس جاری نہیں کرتے، سننا ممکن نہیں۔ بار کے آئینی مؤقف پر خوشی ہے، لیکن اس وقت صرف اعتراضات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
عدالت نے کہا کہ جب تک سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے پر فیصلہ نہیں کرتی، یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا۔