الجزیرہ کے مطابق اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حکومت کو براہ راست ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔
اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کی چیئرپرسن ناوی پیلائی نے بتایا کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور صدر اسحاق ہرزوگ کے بیانات اور احکامات کو بنیاد بناتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ریاست اسرائیل اجتماعی نسل کشی کی مرتکب ہوئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور اس کے خلاف ٹھوس قانونی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی شہری جبری قحط اور بمباری کا شکار ہو کر شہید ہو رہے ہیں، اور یہ المیہ روکا جا سکتا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی میں سنجیدہ نہیں، اور قطر پر حالیہ حملہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، والکر ترک نے اسرائیل کے قطر پر حملے کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اب مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا، عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل پر سخت دباؤ ڈالے اور ان تمام پامالیوں پر فوری ایکشن لے جن کی نشاندہی عالمی عدالت نے کی ہے۔
ادھر برطانوی سیاست میں بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ لیبر پارٹی کی رکنِ پارلیمنٹ کم جانسن نے کہا کہ جو لوگ فلسطینی نسل کی نفی کر رہے ہیں، انہیں شرم آنی چاہیے۔
انہوں نے اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ”ہماری حکومت نے کہا کہ اسرائیل نسل کشی نہیں کر رہا، جو کہ شرمناک ہے۔“
ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ کو اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت فوری طور پر بند کرنی چاہیے اور جو لوگ اس نسل کشی کے ذمے دار ہیں، ان سب کا احتساب ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ غزہ میں صیہونی حملے جاری ہیں، اسرائیلی فوج نے ٹینکوں کے ساتھ زمینی آپریشن شروع کر دیا ہے۔ تازہ حملوں میں تین صحافیوں سمیت 78 نہتے افراد شہید ہو چکے ہیں، اور کل شہدا کی تعداد 65 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ کو مکمل تباہ کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ شہر حماس کا قبرستان بن جائے گا۔