بچے کچے یہودی دنیا بھر میں پھیل گئے۔ ہولو کاسٹ کی تاریخ میں یہ بھی ثبت ہے۔ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہٹلر کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ نہ ہو سکا جو وہ چاہتا تھا۔ گویا قدرت انھیں کسی اور پلاننگ کے تحت زندہ رکھنا چاہتی تھی۔ ہم مسلمان بھی ان کی اس اذیت ناک صورت حال پر پریشان تھے۔ آپ ماضی کے دھندلکوں میں جھانکیں تو فلم ’’یہودی کی لڑکی‘‘ اسی طرح کی ایک مثال تھی۔
تمام گھیٹو (یہودی بستیاں) کو تباہ کرنے کی پلاننگ اس حد تک کارگر رہی کہ وہ قتل کر دیے گئے۔ وبائی اموات کا شکار ہوئے، چھپ کر رہنے پر مجبور ہوئے یہاں تک کہ گٹر لائنوں تک میں انھوں نے زندگی گزاری، بہت سے اپنی شناخت چھپا کر دنیا میں گم ہو گئے۔ پولینڈ میں ان بڑی بستیوں میں مزاحمت بھی کی گئی۔
دوسری جنگ عظیم میں اندازاً 80 ملین افراد ہلاک ہوئے یہ ایک بڑی آبادی یعنی عالمی آبادی 1940 کے مطابق کا تین فیصد، بہرحال اس لمبی چوڑی بحث کا مقصد صرف اتنا تھا کہ یہودی ایک ناپسندیدہ قوم تھے اور ہیں۔ لیکن تمام وجوہات کے باوجود انھوں نے اپنے وجود اور تشخص کے لیے اپنے مذہبی منصوبے کی تکمیل کے لیے شیطانی چالوں پر چلتے ایک نئے انداز کو چنا۔ ان کی ترقی اور ترویج میں قدرت نے ان کو مواقع فراہم کیے اور آج جس صورت حال میں ہم دنیا کو دیکھ رہے ہیں اسے دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ قدرت ہے اس ذات کی جو ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر ہٹلر چاہتا تو یہودی مکمل طور پر دنیا سے نیست و نابود ہو جاتے پر ایسا نہ ہوا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ آج ہم یہ افسوس ناک پہلو سے کہتے نظر آ رہے ہیں، آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
نیتن یاہو کو دنیا کا غنڈہ، بدمعاش بنا کر کیوں مسلط کیا جا رہا ہے، کیا واقعی اس کے پاس اتنی بڑی تعداد میں افواج ہیں کہ وہ کسی پر بھی اپنا تسلط قائم کر سکتا ہے۔ امریکا یا یورپی یونین کے حوالے سے یہ صورتحال اسی طرح واضح ہے کہ کچھ نامنظور اور کچھ منظورکی صدائیں لگاتے ہیں پر حقیقت یہی ہے کہ فلسطین پر اب اس کے مقامیوں کی تعداد انتہائی گھٹ چکی ہے۔ وجہ یہود و نصاریٰ مل کر اپنے منصوبے کی تکمیل میں جتے ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرور ترین یہود جو پہلے ہی اپنی ناشکری اور غرورکے باعث رب العزت کی جانب سے ناپسندیدہ ٹھہرے تھے، نصاریٰ کو اپنا نہیں سمجھتے ۔
حالیہ قطر پر اسرائیل کے حملے پر بھی بڑی مذمت اور صدائیں اٹھ رہی ہیں واہ جی، تہذیب اور اخلاق کا دامن کہ بس یہ ہم مسلمانوں کے ساتھ ہی تو جڑا ہے۔ ابراہیم اکارڈ کے باوجود بھی ایسا سلوک۔ اول تو ابراہیم اکارڈ ہی سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر یہ محدود دماغ رکھنے والے اتنے ہی ذہین ہیں تو فلسطین اورکشمیرکا حل نکال لائیں پر ہائے یہ ابراہیم اکارڈ کے پاسبان۔ اس طرح تو بس ہم مسلمان ہی کسے ہیں معاہدے کی زنجیروں میں اور باقی سارے کھلے غنڈے دندناتے پھر رہے ہیں۔ دراصل بظاہر مسلمانوں کو ایک معاہدے کے تحت قابو میں لانے کا تحریر نامہ کہ بھائی بھائی ہو، اب آگے جو ہم بھائی دوسرے بھائی کے ساتھ کریں گے وہ تم دیکھنا کہ اس دنیا میں تو سگا بھائی زمین کے لیے قتل کر ڈالتا ہے، ہابیل قابیل تو سب کو یاد ہے، پر اب کیا یاد دلانا کہ یہ ساری یاد دہانیاں ہم مسلمانوں کے لیے ہی ہیں اور باقی سارے اپنے خنجر ویسے ہی تیز کر رہے ہیں جو انھوں نے ابراہیم اکارڈ سے پہلے کے لیے تیار رکھے تھے۔
بات قدرت کی ہو تو بس ہر سُو خاموشی چھا جاتی ہے پر یہ ان کی ہی حکمت ہے کہ اپنے اپنے اعمالوں کی فصل بو اور کاٹو کہ یہی ہمیں اس دنیا میں کرنا ہے۔ ہمارا اچھا برا عمل ہی ہمارے کھاتے میں لکھا جائے گا اور مسلمان ہونے کے ناتے یہ تو طے ہے کہ سب کچھ رب العزت کی مشیت کے بغیر نہیں، پر ہمارا اپنا عمل۔ ہم بڑے سفید ہاتھیوں کی سونڈوں، ان کے حجم، ان کے جنگی آلات سے کس قدر متاثر اور رعب میں ہیں کہ ہمیں یہی سوجھتا ہے کہ ہاتھ ملاؤ اور بات مکاؤ کہ جان بڑی ہے، لیکن کیا ایسا قطر کے ساتھ ہوا، ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک امیر مہنگی اسٹیٹ ایک مہنگا ترین تحفہ عنایت کرتی ہے اور وہ سر جھکا کر دانت نکال کر وصول کرتا ہے پھرکیا ہوا۔
ابھی زیادہ عرصے پہلے کی بات نہیں، جب اسرائیل نے اپنے اسرائیلیوں کو امارات سے نکل جانے کا کہا تھا۔ یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ اب اسرائیل کا ارادہ کیا ہے وہ پہلے ہی ترتیب دے چکا ہے،کیونکہ نیتن یاہو کی طبعی عمر بھی ایک ہی حد تک ہے ابھی تک وہ بیج ایجاد نہیں ہوا جو کسی انسان کی عمر میں اضافہ کر دے۔ لہٰذا نیتن یاہو اپنی اسی عمرکے ہوتے، اپنے ان تمام خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہا ہے جسے ایک طویل عرصے سے کچھ سر پھرے گریٹر اسرائیل کے منصوبے سے بچانے کا کہے جا رہے تھے، پر ہم تو ایسے ہی ہیں۔
اسرائیل کے منصوبوں کی کسے خبر، لیکن دنیا بھر میں اس کے جبر و تشدد اور نسل کشی کی مذمت کی جا رہی ہے لیکن کس کے کان پر جوں رینگی۔ ہم میں سے اب بھی بہت سے دانشور اور ہم جیسے کم عقل پراکسی وار کے جھانسے میں آ جاتے ہیں کہ مذہب کے نام سے دور رکھنے کی بہت سی تراکیب ہیں لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ہم کسی پراکسی وار کا نہیں بلکہ ایک برسوں پہلے بنے طے شدہ منصوبے کا شکار ہیں اور یہ منصوبہ دھیرے دھیرے فلسطینیوں کی لاشوں پر سے ہوتا تکمیل کے مراحل میں داخل ہے۔
گرم ترین ممالک میں ٹھنڈے محلوں میں رہنے کے عادی اب خیموں کی گرمی اور مشقت کو بھول چکے ہیں کیونکہ یہ بس ان کے بڑوں نے جھیلا تھا، انھوں نے یہ سب کہاں دیکھا تھا، لہٰذا آپشن کے طور پر وہی چنا گیا جو انھیں اپنے لیے اپنے محلات اور خاندان کے لیے بہتر لگا، لیکن کیا ایسا ہو سکا کہ اسرائیل جیسے بظاہر تندرست اور حقیقی طور پر ذہن سے چالیں چلنے اور جنگ لڑنے والے نے ایک ایسی مملکت جو ثالثی کا کردار ادا کرنے میں آگے آگے تھی، کیا ان کی ثالثی کسی کردار کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکی، کسی ایک بھی بات پر عمل کروا سکی۔ یمن کے باغیوں کی بات کرتے ماتھے پر بل پڑنے والے کیا واقعی فلسطین کے کسی ایک خطے پر امن و سلامتی لا سکتے ہیں۔ کیا وہ قطر پر اسرائیل کا حملہ ناکام کرسکے۔
ہمیں تو یہی بتایا جا رہا ہے کہ اس حملے سے چار حماس کے اور ایک قطرکا سیکیورٹی اہلکار شہید ہوا، لیکن حقیقت تو وہی جانتے ہیں۔نیتن یاہو اپنے ان چند شہریوں کی موت کی ذمے داری تمام فلسطینیوں پر عائد کرتے بمباری کرتے، تشدد کرتے، عورتوں، بچوں بزرگوں کو خون میں نہلا رہا ہے، بھوک اور قحط سے وہ دنیا میں اذیت اور تکلیف کی تصویر بنے ہیں، مظلومیت کی داستان رقم ہو رہی ہے۔ کون ہے ذمے دار؟ کون ہے جو ان گناہ گار ہاتھوں کی پشت پناہی کر رہا ہے سب کچھ جانتے بوجھتے ہزاروں معاہدوں پر بھی دستخط کرنے کے باوجود خود ان کی سیکیورٹی کی کیا ضمانت ہے۔ قدرت سب دیکھ رہی ہے کہ وقت ابھی منتظر ہے پردہ اٹھنے والا ہے۔ آنکھیں بند کر لو۔