فلسطینی صدر محمود عباس نے نیویارک میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس میں ویڈیو خطاب کے دوران فلسطین کے مستقبل کا واضح لائحہ عمل پیش کیا اور مطالبہ کیا کہ حماس اور تمام عسکری دھڑے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کردیں۔ محمود عباس کا کہنا تھا کہ حماس کا فلسطین کی گورننس میں کوئی کردار نہیں ہوگا، ہم ایک غیر مسلح فلسطینی ریاست چاہتے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے آزاد فلسطین کی اپیل بھی کی۔
امریکی حکومت کی جانب سے ویزا نہ ملنے پر فلسطینی صدر محمود عباس اجلاس میں براہِ راست شرکت نہ کر سکے، تاہم ان کا خطاب کانفرنس کا نمایاں لمحہ قرار دیا گیا۔
محمود عباس نے اپنے خطاب میں سب سے پہلے مستقل جنگ بندی اور اقوام متحدہ کے ذریعے غزہ و مغربی کنارے تک انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ بغیر کسی تاخیر کے تعمیر نو کا عمل شروع کیا جائے تاکہ تباہ شدہ علاقوں کو جلد بحال کیا جا سکے اور متاثرہ عوام کو ریلیف ملے۔
لندن میں فلسطینی مشن کو سفارتخانے کا درجہ دے دیا گیا
فلسطینی صدر نے واضح کیا کہ غزہ پر حکومت کرنے میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حماس اور دیگر گروپ اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کریں۔ ان کا کہنا تھا، ’ہم چاہتے ہیں فلسطین ہتھیاروں کے بغیر ایک متحد ریاست ہو۔‘
انہوں نے اعلان کیا کہ جنگ کے خاتمے کے تین ماہ کے اندر ایک عبوری آئین کا مسودہ تیار کیا جائے گا تاکہ اقتدار کی درست اور شفاف منتقلی ممکن بنائی جا سکے۔ اس کے بعد صدارتی اور پارلیمانی انتخابات بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں کرائے جائیں گے تاکہ جمہوری عمل پر کوئی سوالیہ نشان باقی نہ رہے۔
محمود عباس نے کہا کہ فلسطینی عوام ایک جدید جمہوری ریاست چاہتے ہیں جو قانون کی بالادستی، تکثیریت، پُرامن انتقالِ اقتدار، مساوات، انصاف اور خواتین و نوجوانوں کے بااختیار ہونے پر مبنی ہو۔
انہوں نے زور دیا کہ فلسطین ایک ہمہ گیر اصلاحاتی ایجنڈا پر عمل پیرا ہے جس میں گورننس، شفافیت، مالیاتی نظام کی اصلاحات اور یونیسکو کے معیارات کے مطابق نصابِ تعلیم کو اپ ڈیٹ کرنا شامل ہے۔
اپنے خطاب میں فلسطینی صدر نے ان 151 ممالک کو سراہا جنہوں نے فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا ہے اور باقی ممالک سے بھی یہی قدم اٹھانے کی اپیل کی۔ انہوں نے خاص طور پر سعودی عرب، برطانیہ اور فرانس کے کردار کی تعریف کی جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
یاد رہے کہ کانفرنس کے دوران ہی فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا جسے عالمی سفارت کاری میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
محمود عباس نے اقوام متحدہ کی رکنیت کے حصول کے لیے بھی عالمی برادری سے حمایت مانگی اور کہا کہ فلسطین نے 1988 اور 1993 میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا تھا اور آج بھی اسی مؤقف پر قائم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں اسرائیل فوری طور پر مذاکرات کی میز پر آئے تاکہ خونریزی رُکے اور ایک منصفانہ اور جامع امن قائم ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین ہی واحد فریق ہے جو غزہ میں گورننس اور سیکیورٹی کی مکمل ذمہ داری اٹھانے کا اہل ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک عارضی انتظامی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو فلسطینی حکومت کے ساتھ منسلک ہوگی اور اس میں عرب اور بین الاقوامی نمائندے بھی شامل ہوں گے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے اسرائیلی توسیع پسندی، آبادکاریوں کی تعمیر، اسلامی و مسیحی مقدس مقامات پر حملوں اور بیت المقدس کو تنہا کرنے کی پالیسیوں کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ عرب قومی سلامتی اور عالمی امن کے لیے بھی براہِ راست خطرہ ہیں۔
محمود عباس نے کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سعودی عرب، فرانس، اقوام متحدہ اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس امن منصوبے پر عمل درآمد کی آمادگی ظاہر کی جسے نیویارک میں منظور کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ایک متعین ٹائم لائن کے تحت، بین الاقوامی نگرانی اور ضمانتوں کے ساتھ اس منصوبے پر عمل درآمد کرنا ہوگا تاکہ منصفانہ امن اور علاقائی تعاون کا نیا دور شروع ہو۔‘
انہوں نے مصر، قطر اور امریکا کے کردار کو سراہا جنہوں نے غزہ کی جنگ ختم کرانے کی کوششوں میں کردار ادا کیا، جبکہ مصر اور اردن کے اس مؤقف کی تعریف کی کہ وہ فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کو ہرگز قبول نہیں کرتے۔