انڈونیشیا: اسکول سے کھانا خرید کر کھانے کے بعد ایک ہزار سے زائد بچے فوڈ پوائزننگ کا شکار

انڈونیشیا کے صوبہ ویسٹ جاوا میں رواں ہفتے اسکول لنچ کھانے کے بعد ایک ہزار سے زائد بچے فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو گئے ہیں جس کی تصدیق حکام نے جمعرات کو کی ہے۔

صوبہ ویسٹ جاوا کے گورنر دیدی مولیادی نے برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا ہے کہ فوڈ پوائزننگ کے یہ واقعات ویسٹ جاوا کے چار مختلف علاقوں میں رپورٹ ہوئے ہیں، جب کہ غیر سرکاری تنظیموں نے صحت سے متعلق بڑھتے خدشات کے باعث اس پروگرام کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ تازہ کیسز اُس وقت سامنے آئے ہیں جب گزشتہ ہفتے ویسٹ جاوا اور سنٹرل سولاویسی صوبوں میں 800 طلباء اسکول لنچز کھانے کے بعد فوڈ پوائزننگ کا شکار ہوئے تھے۔

یہ کھانے انڈونیشیا کے صدر پرابوو سبیانٹو کے ”فری نیوٹریشس میلز پروگرام“ کے تحت فراہم کیے گئے تھے۔ تاہم یہ واقعہ اربوں ڈالر کے مفت غذائیت بخش کھانوں کے پروگرام کے لیے ایک دھچکا ثابت ہوا ہے۔

انڈونیشیا میں صدر پرابوو کے فری میل پروگرام کے معیار اور نگرانی پر سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ پروگرام تیزی سے پھیل کر اب 2 کروڑ سے زائد افراد تک پہنچ چکا ہے، جب کہ سال کے اختتام تک 28 کروڑ کی آبادی میں سے 8 کروڑ 30 لاکھ افراد تک کھانا پہنچانے کا ہدف ہے۔ اس پروگرام کا بجٹ اس وقت 171 کھرب روپیہ (تقریباً 10.22 ارب ڈالر) ہے، جو آئندہ سال دوگنا ہونے والا ہے۔

گورنر دیدی مولیادی کے مطابق پیر کے روز ویسٹ بینڈونگ میں 470 سے زائد طلباء بیمار ہوئے، جب کہ بدھ کو وہاں ایک اور سوکابومی ریجن میں مزید تین واقعات پیش آئے، جن میں اسکول لنچ کھانے سے کم از کم 580 بچے متاثر ہوئے ہیں۔

مولیادی کا کہنا تھا کہ ہمیں اس پروگرام کو چلانے والوں کا جائزہ لینا ہوگا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان بچوں کے ذہنی صدمے کو کیسے دور کیا جائے، جو انہوں نے کھانے کے بعد محسوس کیا ہے۔“


AAJ News Whatsapp

انہوں نے مزید کہا کہ ویسٹ بینڈونگ کے چھوٹے اسپتال بیمار طلباء کی بڑی تعداد سے نمٹنے کے قابل نہیں رہے۔

صدر پرابوو کے دفتر نے تازہ واقعات پر تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔ البتہ، نیشنل نیوٹریشن ایجنسی کے سربراہ، دادان ہندایانا، جن کا کام اس پروگرام کی نگرانی ہے، انہوں نے بتایا ہے کہ جہاں فوڈ پوائزننگ کے کیسز سامنے آئے ہیں وہاں کی کچن سروسز کو معطل کر دیا گیا ہے۔

مقامی نشریاتی ادارے کومپاس ٹی وی نے ویسٹ بینڈونگ کے ایک اسپورٹس ہال کی ویڈیو جاری کی ہے، جہاں ہنگامی طور پر اسے علاج کے مرکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ویڈیوز میں درجنوں طلباء کو فولڈنگ بستروں پر اور کچھ کو زمین پر لیٹے ہوئے تکلیف میں دکھایا گیا ہے، جب کہ ایمبولینسز کی مسلسل آمد و رفت جاری ہے۔

ایک تھنک ٹینک نیٹ ورک فار ایجوکیشن واچ کے مطابق، جنوری 2024 میں پروگرام کے آغاز سے لے کر اب تک کم از کم چھ ہزار 452 بچے فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو چکے ہیں۔

گورنر مولیادی نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ کچن اسٹاف کو بہت زیادہ طلباء کے لیے کھانا تیار کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا اور یہ کچن اسکولوں سے بہت دور واقع تھے، جس کے باعث کھانا بہت جلدی، بعض اوقات رات کو ہی تیار کیا جاتا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب کھانا گرم ہوتا تھا، تو اُسے فوری طور پر ٹرے میں رکھ کر بند کر دیا جاتا، جس سے وہ خراب ہو جاتا تھا۔

مولیادی نے مزید بتایا کہ ویسٹ بینڈونگ میں بڑے پیمانے پر فوڈ پوائزننگ کے باعث مقامی حکومت نے ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی ہے، جس سے صوبائی حکومت کو متاثرہ علاقوں میں امدادی بجٹ مختص کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔

Similar Posts