جسٹس عالیہ نیلم نے کیس کے حوالے سے تفتیشی افسر کو بھی 14اکتوبر کو طلب کرلیا ۔
لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے صدر لاہور پریس کلب سمیت دیگر صحافیوں کو این سی سی آئی اے کے نوٹسز کے خلاف درخواست پر سماعت کی اور نوٹسز کے حوالے سے سوالات اٹھا دیے۔
اس موقع پر صدر پریس کلب ارشد انصاری ، صدر کورٹس جرنلسٹ ایسوسی ایشن محمد اشفاق سمیت صحافیوں کی بڑی تعداد عدالت میں پیش ہوئی ۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ کمپلینٹ کی کاپی سمیت ریکارڈ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کیا جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کمپلیننٹ عزیز اللہ کون ہے؟ یہ نوٹس کس قانون کے تحت جاری ہوئے؟۔ این سی سی آئی اے نے یہ کیا تماشا لگا ہوا ہے؟۔ روزانہ یوٹیوبرز مختلف اداروں کی ہرزہ سرائی کرتے ہیں، کیا ان کے خلاف بھی یہی ایکشن لیا گیا ؟
جسٹس عالیہ نیلم نے سوال اٹھایا کہ این سی سی آئی اے کے پاس 50ہزار شکایات ہیں، کیا تمام پر ایسے ہی ایکشن لیا گیا؟۔
سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے لا افسر رفاقت ڈوگر عدالت میں پیش ہوئے۔
واضح رہے کہ ارشد انصاری، مجاہد شیخ ،احمد فراز سمیت 6 صحافیوں نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں این سی سی آئی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ارشد انصاری سینئر صحافی اور لاہور پریس کلب کے صدر ہیں۔ اب این سی سی آئی اے کی جانب سے درخواست گزاروں کے خلاف کی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ این سی سی آئی کی جانب سے طلبی کے 2 نوٹسز بھیجے گئے ہیں۔
درخواست کے مطابق نوٹس جاری کرنے کے فوری بعد این سی سی آئی اے نے کرائم رپورٹرز کے گھروں پر چھاپے مارے ۔ این سی سی آئی اے کی صحافیوں کے خلاف کارروائی غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ این سی سی آئی اے کی جانب سے جاری نوٹسز کالعدم قرار دے اور درخواست کے حتمی فیصلے تک این سی سی آئی اے کے نوٹسز پر عملدرآمد معطل کرے۔