عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا اس منصوبے کی سربراہی برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر کے سپرد کر رہا ہے۔ جسے غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی (جیٹا) کا نام دیا گیا ہے۔
یہ ادارہ پانچ سال تک غزہ کی اعلیٰ سیاسی اور قانونی اتھارٹی کے طور پر کام کرے گا اور فلسطین اتھارٹی کا نعم البدل بھی ہوسکتا ہے جب کہ اس میں حماس کا بھی کوئی کردار نہیں ہوگا۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق یہ ماڈل تیمور لیستے اور کوسوو جیسے خطوں میں بننے والی عبوری حکومتوں سے متاثر ہے۔
ابتدائی طور پر جیٹا کا ہیڈکوارٹر مصر کے شہر العریش میں ہوگا، بعد ازاں یہ اقوام متحدہ کی منظوری اور ایک کثیر القومی امن فورس کے ہمراہ غزہ میں داخل ہوگی۔
جیٹا کا انتظامی ڈھانچہ
جیٹا کا بورڈ سات سے دس ارکان پر مشتمل ہوگا، جن میں ایک فلسطینی نمائندہ، ایک اعلیٰ اقوام متحدہ کا افسر اور نمایاں مسلم شخصیات شامل ہوں گی۔
ایگزیکٹو سیکریٹریٹ میں 25 ارکان ہوں گے، جن میں پانچ کمشنرز کلیدی شعبوں جیسے انسانی امور، تعمیر نو، قانون سازی، سکیورٹی اور فلسطینی اتھارٹی (پی اے) سے روابط سنبھالیں گے۔
ایک خصوصی “پراپرٹی رائٹس یونٹ” قائم ہوگا تاکہ فلسطینیوں کی جائیداد کے حقوق محفوظ رہیں اور نقل مکانی کی صورت میں واپسی یقینی ہو۔
جیٹا کسی فلسطینیوں کو غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کرے گا۔
سیاسی ردعمل
اگرچہ امریکا اس تجویز کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقوام متحدہ کے نیویارک ڈیکلریشن کے درمیان ایک “سمجھوتہ” قرار دے رہا ہے، مگر اس نے خطے میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
عرب ممالک کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی صورت امن فورس میں حصہ ڈالیں گے جب فلسطینی ریاست کے قیام کا واضح اور ناقابل واپسی روڈمیپ دیا جائے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ ٹونی بلیئر کا منصوبہ فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ نہیں کھولتا بلکہ اسرائیل کے لیے نرم قبضے کا ایک نیا ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔
تنازع اور تحفظات
ٹونی بلیئر ماضی میں بھی خطے کے لیے مشرق وسطیٰ کے ایلچی رہ چکے ہیں، لیکن ان کی شخصیت متنازع سمجھی جاتی ہے۔ عراق جنگ کی حمایت اور فلسطینی ریاست کے قیام میں مبینہ رکاوٹ کے باعث کئی فلسطینی اور عرب رہنما ان پر اعتماد نہیں کرتے۔
دوسری جانب، بعض مغربی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ ابھی یہ منصوبہ ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کی مدت پانچ سال سے کم ہو کر دو سال تک بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے نفاذ کو جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے مشروط کیا جا رہا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کا موقف
فلسطینی صدر محمود عباس نے جنرل اسمبلی سے ویڈیو لنک خطاب میں کہا کہ حماس کو جنگ کے بعد غزہ کے نظم و نسق میں کوئی کردار نہیں دیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غزہ ریاستِ فلسطین کا لازمی حصہ ہے اور ہم وہاں حکومت اور سکیورٹی کی مکمل ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تیار ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا نے جنرل اسمبلی اجلاس سے قبل محمود عباس کا ویزا منسوخ کر دیا تھا، جس کے باعث وہ نیویارک میں موجود نہیں تھے۔
ٹرمپ کا بیان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں عرب اور مسلم رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا کہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ناقابل قبول ہوگا۔