ایشیا کپ 2025، کو بھی بھارت نے سیاست زدہ کر کے ایک ایسا میدان بنا دیا ہے جہاں کھیل کے بجائے نفرت اور پروپیگنڈا کو فروغ دیا جا رہا ہے، لیکن افسوس کہ بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں، آر ایس ایس کے غنڈوں اور ان کے سیاسی سہولت کاروں نے اس کھیل کو بھی اپنی گندی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
کرکٹ کا وہ میدان جو کبھی دوستی، کھیل اور شفافیت کی علامت تھا، آج بھارتی ہٹ دھرمی اور انتہا پسندی کی وجہ سے متنازعہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف کھیل کے تقدس کو مجروح کر رہی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کے مکروہ عزائم کو بھی بے نقاب کر رہی ہے۔
اس سارے کھیل میں سب سے اہم کردار جے شا کا ہے جو بھارت کا وزیر داخلہ امیت شا کا بیٹا ہے اور براہ راست آر ایس ایس کی سوچ کا پروردہ ہے۔ جے شا جب سے آئی سی سی کا چیئرمین بنا ہے، اس نے کرکٹ کو سیاست کا میدان بنا دیا ہے۔
ماضی میں بھی بھارت نے ایشیا کپ جیسے اہم ایونٹس میں پاکستان کے خلاف اپنی ہٹ دھرمی اور تعصب پر مبنی رویے کا مظاہرہ کیا، مگر اب یہ رویہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستان کی ٹیم اور شائقین کرکٹ کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تاکہ دنیا بھر میں بھارت کا پروپیگنڈا غالب رہے۔
حالیہ ایشیا کپ کے دوران بھی یہی کچھ دیکھنے میں آیا جب بھارتی گودی میڈیا نے جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگا کر کھیل کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا۔ پہلگام واقعہ جسے بھارتی اداروں نے اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر پیش کیا، دراصل ان کی ناکام حکمت عملی کا حصہ ہے۔
بھارت کی فوج کئی محاذوں پر ہزیمت اٹھا چکی ہے اور اپنی بزدل شکست خوردہ کارروائیوں کو چھپانے کے لیے کھیل کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان نے میچ جیتنے کے بعد اپنی کامیابی کو پہلگام واقعہ سے جوڑ کر اس حقیقت کو مزید اجاگر کیا کہ بھارتی کھیلوں کے ادارے اور ٹیمیں کس حد تک فوجی پروپیگنڈے کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔
ایک کھلاڑی کا اپنی کارکردگی کو کھیل کے بجائے فوجی کارروائیوں کے ساتھ نتھی کرنا کھیل کی روح کے منافی ہے۔بھارتی کپتان نے آئی سی سی کے کورٹ آف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں بات کی جب کہ اس میں آپ مذہب، سیاسی بیان اور آرمی یا فورسز کی بات نہیں کرسکتے، اگر کرسکتے ہیں تو آئی سی سی کی اجازت کے بعد کرسکتے ہیں، اگر آئی سی سی نے ایسی اجازت دی ہے تو وہ سامنے آنا چاہیے۔
ماضی میں عثمان خواجہ اور معین علی نے غزہ کے لیے کچھ کہا تھا، اس پر انھیں پچیس فیصد جرمانہ ہوا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کھیل کو کھیل نہیں بلکہ اپنی انتہا پسندانہ سیاست کا آلہ کار سمجھتا ہے۔ یہ صورتحال مزید اس وقت شرمناک ہوئی جب متنازعہ میچ ریفری اینڈی پائی کرو (Andy Pycroft)، جس کا تعلق زمبابوے سے ہے، پاکستان کے خلاف کھلے عام جانبدار فیصلے کرتا رہا۔
اینڈی پائی کرو ماضی میں بھی کئی بار پاکستان کے خلاف غلط فیصلے دے چکا ہے اور اب اسے جے شا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ بین الاقوامی کرکٹ میں ریفری اور امپائرزکا غیر جانبدار ہونا سب سے اہم اصول سمجھا جاتا ہے، مگر بھارت نے اس اصول کو بھی اپنے مکروہ عزائم کی خاطر روند ڈالا ہے۔
ایک غیر جانبدار ریفری کو بھارتی ایجنڈے کا حصہ بنا دینا آئی سی سی کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ جے شا نے ادارے کو اپنی ذاتی جاگیر بنا لیا ہے۔ بھارت کی کرکٹ میں بلیک میلنگ کا یہ رجحان کوئی نیا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی بھارت نے مختلف کرکٹ بورڈز پر دباؤ ڈال کر اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
سری لنکا، بنگلہ دیش اور حتیٰ کہ افغانستان کی ٹیموں کو بھی بھارت اپنی شرائط پر کھیلنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔ آئی سی سی کے اجلاسوں میں بھارت کا رویہ ہمیشہ ہٹ دھرمی پر مبنی رہا ہے، جہاں وہ مالی طاقت اور لابنگ کے ذریعے فیصلے اپنے حق میں کرواتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایشیا کپ جیسے بڑے ٹورنامنٹ میں بھی پاکستان کو بار بار نظرانداز کیا گیا اور اس کے جائز مطالبات کو دبانے کی کوشش کی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ بھارتی گودی میڈیا نے بھی اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے تاکہ پاکستان کو بدنام کیا جا سکے۔
بھارتی چینلز اور اخبارات نے جھوٹے تجزیے، من گھڑت کہانیاں اور بے بنیاد دعوے کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان کرکٹ دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی میڈیا خود آر ایس ایس کے غنڈوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اور اس کا واحد مقصد پاکستان کے خلاف نفرت اور تعصب کو فروغ دینا ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ بین الاقوامی برادری بھارت کی اس بلیک میلنگ اور ہٹ دھرمی کو روکے۔ آئی سی سی جیسے اداروں کو غیر جانبداری سے اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں، نہ کہ کسی ایک ملک کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننا چاہیے، اگر بھارت کو کھلی چھوٹ دی گئی تو نہ صرف کھیل کی ساکھ متاثر ہوگی بلکہ دنیا بھر کے کھلاڑیوں کا اعتماد بھی مجروح ہوگا۔
اسی تناظر میں لازم ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ باضابطہ طور پر بھارت کی جانبدارانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج درج کروائے، متنازعہ ریفریوں اور امپائروں کے خلاف شواہد دنیا کے سامنے لائے، ایشیائی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے بھارتی دباؤ کو ناکام بنایا جائے، پاکستانی میڈیا حقائق کو دنیا کے سامنے پیش کرے اور نوجوان کھلاڑی اپنے جوش و جذبے اور شاندارکارکردگی سے بھارت کے پروپیگنڈے کو ناکام بنائیں۔
کرکٹ ایک کھیل ہے اور کھیل کو کھیل ہی رہنا چاہیے۔ اسے سیاست، نفرت اور انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھانا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ بھارت کی موجودہ پالیسیوں نے اس کھیل کو داغدار کیا ہے مگر پاکستان کو چاہیے کہ اپنے صبر، حوصلے اور شاندار کھیل سے دنیا کو یہ باور کرائے کہ کرکٹ امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام ہے، نہ کہ نفرت، سیاست اور بلیک میلنگ کا۔
بھارت کی انتہا پسند حکومت نے ایشیا کپ کو متنازع بنا دیا ہے۔ کرکٹ شائقین میں عدم دلچسپی بڑھ گئی ہے اور بھارتی کرکٹ ٹیم کے رویے سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔ دنیا میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے رویے کو کسی نے بھی نہیں سراہا۔ پاکستان اور انڈیا میں پہلے بھی جنگیں ہوتی آئی ہیں لیکن چاہے کرکٹ ہو، ہاکی ہو یا کبڈی ہو، ایسا پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے، یہ اسپرٹ آف دی گیم کے خلاف ہے۔