افغانستان کا غیر ملکی فوجی اڈے کے خلاف پاکستان، روس، چین اور ایران کے مؤقف کا خیر مقدم

امارت اسلامیہ افغانستان نے پاکستان، روس، چین اور ایران کے اس مؤقف کا خیرمقدم کیا ہے جس میں ان ممالک نے افغانستان میں کسی بھی بیرونی فوجی اڈے کے قیام کی مخالفت کی ہے۔

امارت اسلامیہ افغانستان کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے کہا ہے کہ غیر ملکی فوجی اڈے کے قیام کے خلاف پاکستان، روس، چین اور ایران کے مؤقف کا خیر مقدم کرتے ہیں، افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی اور نہ ہی ملک میں کسی مسلح گروہ کو سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے۔

حمد اللہ فطرت نے اس خیال کو بے بنیاد قرار دیا کہ افغانستان سے دوسرے ممالک کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ ان کے بقول امارت اسلامیہ افغانستان بدعنوانی، منشیات اور ہر قسم کی ناپسندیدہ امور کے خلاف سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے اور اس عمل کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔

امارت اسلامیہ افغانستان کے نائب ترجمان نے واضح کیا کہ امارت اسلامیہ افغانستان تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر مثبت تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک حقیقی اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر ہے کہ افغانستان میں موجود سیکیورٹی، استحکام اور ترقی کے تناظر میں علاقائی اور عالمی ممالک کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ کابل کی پالیسی باہمی اعتماد، مثبت روابط اور دوستانہ تعلقات کے فروغ پر مبنی ہے اور افغانستان سے متعلق غلط خدشات یا بے بنیاد الزامات کو سختی سے مسترد کیا جاتا ہے۔

سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ علاقائی ممالک کی جانب سے افغانستان کے استحکام کی حمایت، امارت اسلامیہ کے لیے ایک اہم موقع ہے جس کے ذریعے وہ اپنے سیاسی اور اقتصادی روابط کو مزید مستحکم بنا سکتی ہے۔ ان کے بقول کابل کی جانب سے ہمسایہ ممالک کے خدشات کا مثبت جواب دینا اعتماد سازی کے عمل کو آگے بڑھا سکتا ہے۔


AAJ News Whatsapp

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب چین، روس، ایران اور پاکستان نے حالیہ دنوں ایک چار فریقی اجلاس میں افغانستان کے بارے میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ افغانستان کے مسائل کے حل کے لیے علاقائی ڈھانچوں، خصوصاً ”ماسکو فارمیٹ“ اور ”شنگھائی تعاون تنظیم“ کا کردار اہم ثابت ہوسکتا ہے۔

یوں افغانستان کے بارے میں روس، چین، ایران اور پاکستان کا مشترکہ مؤقف نہ صرف امارت اسلامی کے لیے ایک سفارتی سہارا بن سکتا ہے بلکہ یہ خطے میں امن، استحکام اور تعاون کے نئے امکانات کو بھی جنم دے سکتا ہے۔

Similar Posts