’’ہم بھوکے ہیں۔‘‘ وہ کہتا ہے۔ تھکن سے اْس کی آواز کھوکھلی ہے۔ ’’یہاں تک کہ ایک لفظ کے طور پر بھوک بھی اْس تکلیف سے کم ہے جو ہم سب محسوس کر رہے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتا ہے۔ اْس کی آنکھیں گزرتے لوگوں کے پیچھے چل رہی ہیں۔
وہ اَپنی کمر کے گرد رَسّی ایڈجسٹ کرتا ہے، ایسا اشارہ جو سانس لینے کی طرح معمول بن گیا ہے۔ ہانی ابو رزق کا کہنا ہے ’’جب ہمیں کھانے کو نہیں ملا، تو ہم قدیم زمانے کے لوگوں کی طرح پیٹ کے گرد پتھر باندھ کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ صرف جنگ نہیں، یہ جان بْوجھ کر پھیلایا گیا قحط ہے۔‘‘
غزہ کے دل کی دھڑکن ختم ہو رَہی
اکتوبر 2023ء میں غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے آغاز سے پہلے خوراک ہی غزہ میں روزمرہ زندگی کے دل کی دھڑکن تھی۔ سب لوگ اپنے پروگرام اجتماعی کھانوں کے اردگرد بناتے تھے۔ زاتار اَور زیتون کے چمکیلے تیل کے ناشتے، پرتوں والے مقلوبہ اور مساخان کے لنچ جو گھروں کو گرمی سے بھر دیتے اور شامیں چاولوں کی ٹرے، نرم گوشت اور باغات کی جڑی بْوٹیوں سے مہکتے موسمی سلاد کے اردگرد گزاری جاتی تھیں۔
غم میں ڈوبا ہانی ابو رزق اْن دنوں کو اَیسے یاد کرتا ہے جیسے کسی فوت شدہ قریبی عزیز کو یاد کر رہا ہو۔ یہ کنوارا نوجوان خاندان اور دَوستوں کے ساتھ کھانا کھانے اور اِکٹھے ہونا پسند کرتا تھا۔ وہ کھانے کے آرام دہ کمروں کے بارے میں بات کرتا ہے جہاں گھر میں دی گئی دعوتیں آرٹ کا نمونہ لگتی تھیں اور شامیں میٹھے اور مسالہ دار مشروبات سے بھری ہوتیں جو زبانوں اور یادوں میں رہ جاتی ہیں۔
وہ کہتا ہے ’’اب تو اہلِ غزہ کے لیے روٹی تو کیا ٹماٹر یا ککڑی بھی عیش و آرام کی چیز بن چکے … ہم اِنھیں خواب میں ہی کھا پاتے ہیں۔ غزہ تمام عالمی دارالحکومتوں سے زیادہ مہنگا ہو گیا ہے اور ہمارے پاس خریدنے کے لیے کچھ بھی رقم نہیں۔‘‘
جنگ کے تقریباً چوبیس مہینوں کے دوران غزہ میں خوراک کی مقدار میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ محاصرہ شدہ پٹی اسرائیل کے مکمل رحم و کرم پر ہے جس نے آٹے سے لے کر کھانا پکانے کی گیس تک ہر چیز کی رسائی محدود کر دی ہے۔
لیکن 2 مارچ کے بعد تو غزہ میں خوراک اور دِیگر ضروری اشیا کی ترسیل خوفناک حد تک کم ہو گئی۔ اسرائیل نے مارچ سے مئی تک تمام خوراک مکمل طور پر روک دی اور اْس کے بعد صرف کم سے کم امداد کی ترسیل کی اجازت دی۔ اسرائیل کے اِس طرزِعمل کی گو بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر مذمت ہوئی مگر اہلِ غزہ کے دکھوں کا مداوا نہ ہو سکا۔
بچوں کو تکلیف میں دیکھنا
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق جنگ کے دوران کم از کم ڈیرھ ہزار فلسطینی جن میں کئی بچے اور نوزائیدہ شامل ہیں، غذا کی قلت اور پانی کی کمی سے ہلاک ہو چکے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ ’’مکمل قحط‘‘ پورے علاقے میں پھیل جائے گا جبکہ یونیسیف نے رپورٹ کیا ہے کہ شمالی غزہ میں پانچ سال سے کم عمر کے تین میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔
فدا حسن، ایک سابق نرس اور جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں مقیم تین بچوں کی ماں ہیں جو غذائی قلت کی علامات جانتی ہیں۔ مغربی غزہ میں اپنے بے گھر خاندان کی پناہ گاہ سے بتاتی ہیں: ’’بھوک میرے بچوں کے اجسام میں گہرائی تک سرایت کر چکی۔‘‘ اْس کا سب سے چھوٹا بچہ، دو سالہ حسن ہر صبح کھانے کے لیے روتا ہوا اْٹھتا اور رَوٹی مانگتا ہے جو موجود نہیں ہوتی۔
’’ہم نے اپنے ہر بچے کی سالگرہ جنگ سے پہلے اچھی دعوتیں کر کے منائی، سوائے حسن کے۔ وہ دَو مہینے پہلے پیدا ہو گیا تھا اور اَب مَیں اْسے مناسب کھانا بھی نہیں دے سکتی۔‘‘ وہ آنکھوں میں آنسو لیے کہتی ہیں۔
فدا حسن کا مزید کہنا ہے کہ اْن کی دس سالہ بیٹی، فراس شدید غذائی قلت کی ظاہری علامات ظاہر کرتی ہے اور جنہیں وہ دَردناک جذبہ لیے پہچانتی ہے۔ جنگ سے پہلے اْن کا گھر کھانے کے اوقات میں زندگی سے گونجتا تھا۔ ’’ہم دن میں تین یا چار بار کھاتے تھے۔‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ ’’دوپہر کا کھانا اکٹھا ہونے کا وقت تھا۔ سردیوں کی شامیں دال کے سوپ کی خوشبو سے بھری ہوتی تھیں۔ ہم بہار کی دوپہریں بیل کے پتوں سے بھرے ہوئے خوشبودار ماحول میں گزارتے۔
’’اب ہم … ہم بھوکے سوتے ہیں۔ نہ آٹا ہے، نہ روٹی، نہ پیٹ بھرنے کے لیے کچھ ہے۔‘‘ وہ حسن کا کانپتا چھوٹا سا جسم سینے سے لپٹائے کہتی ہیں۔ ’’ہم نے دو ہفتوں سے ایک روٹی نہیں کھائی۔ ایک کلو آٹے کی قیمت 150 شیکل (40 ڈالر) ہو چکی اور ہم اْسے خریدنا برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
جب بمباری شروع ہوئی، تو حسن چھ ماہ کا تھا۔ اب دو سال کی عمر میں بھی اپنی عمر کے ایک صحت مند بچے سے بہت کم مشابہت رکھتا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے بارہا خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کا محاصرہ اَور اِنسانی امداد پر پابندیاں انسان ساختہ قحط کے حالات پیدا کر رہی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی اْمور کے مطابق عام حالات میں غزہ میں روزانہ درکار خوراک اور سامان کے 600 ٹرکوں میں سے صرف ایک حصّہ ہی پہنچ رہا ہے۔
سیکورٹی کے فقدان کے درمیان غزہ میں داخل ہونے والی انسانی امداد گروہوں اور لْوٹ مار کا نشانہ بن جاتی ہے۔ یہ عمل ضرورت مند لوگوں کو قلیل سامان تک رسائی سے روک دیتا ہے۔ مزیدبراں مئی سے امریکا اور اِسرائیلی حمایت یافتہ تنظیم، جی ایچ ایف (GHF) کی طرف سے فراہم کی جانے والی انسانی امداد حاصل کرنے کی کوشش کے دوران امداد کے متلاشی سینکڑوں مایوس اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں گولی کھا کر شہید ہو چکے۔
امریکی کمپنیوں کا ہاتھ
وہ دیھیے، ہزاروں بھوکے لوگ شدید گرمی میںآٹے کے تھیلے پانے کے لیے گھنٹوں انتظار کر رہے ہیں۔ یہ تھیلے صرف دس منٹ میں بَٹ جاتے ہیں اور جنہیں تھیلے نہیں ملتے، وہ مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ یہ غزہ میں قائم چار اِمدادی مراکز میں نظرآتا عام منظر ہے۔ اِس مایوسی کی وجہ قلت نہیں کیوںکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے پاس غذائی قلت کے شکار فلسطینیوں تک پہنچانے کے لیے بہت ساری خوراک موجود ہے مگر اسرائیل نے اْسے اجازت نہیں دی۔
مسئلہ اسرائیل کی کئی مہینوں سے جاری امداد کی ناکہ بندی ہے جس کے بارے میں سو سے زیادہ اِنسانی تنظیموں نے کہا ہے کہ یہ افراتفری ’’بھوک اور موت‘‘ کا سبب بن گئی۔ اگرچہ اسرائیلی حکام نے ماہِ جولائی کے آخر میں قافلوں کو دوبارہ غذا ترسیل شروع کرنے کی اجازت دے دی لیکن پھر بھی غزہ کے تین میں سے ایک باشندے کو خوراک نہ مل سکی جبکہ اِس سے پہلے درجنوں فلسطینی بھوک سے مر چکے۔
اِس اسرائیل ساختہ قحط کے درمیان تاہم اسرائیلی حکومت نے ایک اور قسم کی کھیپ کو آزادانہ طور پر آنے کی اجازت دیے رکھی … ہتھیاروں کی درآمدات بلاروک ٹوک جاری ہیں، ہزاروں پاونڈ بم، بندوقیں اور گولہ بارود اِسرائیل کی دفاعی افواج میں ڈالا جا رہا ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ، فرانسسکا البانیس کی ایک نئی رپورٹ نے اِس مہلک سازوسامان کے بڑے سپلائی کنندہ … امریکا کا پردہ فاش کیا ہے۔
’’قبضے کی معیشت سے نسل کشی کی معیشت تک‘‘ کے عنوان سے جاری یہ رپورٹ بے نقاب کرتی ہے کہ کس طرح بڑی امریکی کارپوریشنیں اربوں ڈالر کی آمدنی کے عوض غزہ میں اسرائیل کے مظالم برقرار رکھنے کی سہولت فراہم کرنے کو بے چَین ہیں۔ یہ رویّہ اکیسویں صدی کے بدترین انسانی بحران میں امریکی قوم کی ناقابلِ تردید شراکت بھی ظاہر کرتا ہے۔
جنگ سے منافع خوری کا عجوبہ قدیم جڑیں رکھتا ہے۔ فرانسسکا البانیس کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ امریکا کا ’’ملٹری۔صنعتی۔ٹیکنالوجیکل کمپلیکس‘‘ فلسطین میں جاری اسرائیلی مظالم کے ذریعے منفرد طور پر خوفناک کمائی کر رہا ہے۔ رپورٹ بیان کرتی ہے کہ کس طرح لاک ہیڈ مارٹن کی قیادت میں امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں نے اسرائیل کے لیے لڑاکا طیارے بنائے ہیں جن کی بمباری سے ً دو لاکھ سے زیادہ فلسطینی شہید یا زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ اسرائیلی فوج کے ساتھ امریکی کمپنی، پالانٹیر (Palantir) کی شراکت اور تل ابیب میں ایک بورڈ میٹنگ کے ذریعے اِس شراکت داری کی تکمیل کے بارے میں افشا کرتی ہے (پالانٹیر نے غزہ کے اہداف کی نشان دہی کرتے اسرائیلی فضائیہ کے پروگراموں میں شمولیت سے انکار کیا ہے)۔ رپورٹ اِس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح امریکی کمپنی، کیٹرپلر انک کے آلات نے اہلِ غزہ کے مکان اور اَسپتال منہدم کیے اور اْن ڈھانچوں کے اندر پھنسے شہری کچل کر ہلاک کر دیے۔
شاید سب سے زیادہ منافق اور مجرم ’’میگنی فیسنٹ سیون‘‘ کی رکن سات بڑی امریکی کمپنیاں ہیں۔ گوگل کمپنی کا غیرسرکاری نعرہ کبھی ’’برائی نہ کرو‘‘ تھا لیکن کمپنی نے مائیکرو سافٹ اور اَیمیزن جیسی مہا کمپنیوں کی شراکت سے اسرائیل اور اْس کی فوج کو کلاوڈ کمپیوٹنگ سروسز فراہم کیں جس کے عوض اْنھیں اربوں ڈالر ادا کیے گئے۔ رپورٹ ایک اسرائیلی کرنل کا حوالہ دیتی ہے جس نے کلاوڈ کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی کو ’’ہر لفظ کے معنی میں ایک ہتھیار‘‘ کہا اور بتایا ’’یہ ٹیکنالوجی کسی بھی زہریلی گیس کی طرح مہلک ہے۔‘‘
ٹرمپ انتظامیہ نے فرانسسکا البانیس کی تحقیق کا جواب انکار اَور اِنتقام کے کلاسک امتزاج کے ساتھ دیا۔ سیکرٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے فرانسسکا کے کام کو ’’سیاسی اور معاشی جنگ‘‘ قرار دَیتے ہوئے اْن پہ پابندی لگانے کا عندیہ دیا۔
لیکن فرانسسکا البانیس کی تحقیق کے نتائج کئی ممتاز یہودی اور اِسرائیلی شخصیات کی تحقیقات کے نتائج سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ کے سابق فوجی اور نسل کشی کے سرکردہ تاریخ دان، عمر بارتوف نے البانیس کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ’’مَیں ایک چوتھائی صدی سے نسل کشی پر کلاسز پڑھا رہا ہوں۔ جب مَیں کسی نسل کشی کو دیکھتا ہوں، تو اْسے پہچان سکتا ہوں اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔‘‘
اِسی طرح جولائی کے آخری ہفتے اسرائیل میں انسانی حقوق کے دو بڑے گروپوں نے اعلان کیا کہ وہ اِس وضاحت سے متفق ہیں۔ رسالے ’’جیوش کرنٹس‘‘ کے ایڈیٹر ایٹ لارج اور صحافی، پیٹر بینارٹ نے اسرائیل کو ایک نسل پرست ریاست قرار دِیا اور غزہ کے بحران کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’’وہاں موت اور مصائب کی ایک حیران کن سطح معمول پر آ گئی ہے۔‘‘ اسرائیلی اخبار ’’ہیرٹز‘‘ میں بھی سرخیاں کچھ یوں پڑھنے کو ملتی ہیں: ’’بھوک کی ریاضی‘‘ اور ’’غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں تباہی‘‘۔
امریکی دارالحکومت میں ایوانِ نمائندگان کی رکن نمائندہ رَاشدہ طلیب اور سینیٹر برنی سینڈرز جیسے ترقی پسند قانون سازوں نے بارہا اسرائیل کو اَمریکی ہتھیاروں کی منتقلی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مٹھی بھر دیگر ڈیموکریٹس نے ’’بلاک دی بمز ایکٹ‘‘ بھی متعارف کرایا جو کانگریس کی منظوری کے بغیر کچھ ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگائے گا، بشمول بوئنگ اور جنرل ڈائنامکس جیسی امریکی کمپنیوں کے بنائے گئے ہتھیار۔
اگرچہ اِس قانونی بل نے کم توجہ حاصل کی، غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم پر غم و غصّہ امریکی ووٹروں کے درمیان دوطرفہ اتفاقِ رائے بن گیا۔ اب صرف 32 فی صد امریکی اسرائیل کے فوجی اقدامات جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن محمود خلیل جیسے کارکنوں کو فلسطین کی حمایت کرنے پر ملک بدری کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے دیگر فلسطین کے حامی مظاہروں کو وحشیانہ یہاں تک کہ مہلک جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جذبات کو سماجی تحریک میں تبدیل کرنا مشکل کام ہے۔
امریکا میں فلسطین کے حامیوں کو زبردستی پیچھے دھکیل دیاگیا ہے۔ امریکی عوام کو مگر اسرائیل کی جانب ہتھیاروں کی برآمدات کے خلاف منظم کرنا اب بھی ممکن ہے۔ اسرائیل، امریکا اور پوری دنیا میں طلبہ انتقامی کارروائی، اخراج اور بلیک لسٹ کرنے کی دھمکیوں کے باوجود پہلے ہی اِس محاذ پر اخلاقی گواہی دے رہے ہیں۔ اب امریکی قانون سازوں کو اِس بات پر قائل کرنے کے لیے ایک وسیع تر اتحاد ضروری ہے کہ اْنھیں اسرائیل نواز تنظیموں کی طرف سے ملے چیلنج سے زیادہ عوامی ردِعمل سے ڈرنا چاہیے۔
سڑکوں پر آنے کے علاوہ اَمریکی عوام اپنی اْن کارپوریشنوں کا بائیکاٹ بھی کر سکتے ہیں جن کے تعاون سے اسرائیل اہلِ فلسطین کی آبادی کم کرنے میں مصروف ہے۔ اْن کمپنیوں کے ملازمین بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں جیسے کہ گوگل میں اب برطرف شدہ 50 کارکنان نے پچھلے سال ’’نو ٹیک فار اپتھائیڈ‘‘ کے احتجاج کی قیادت کی تھی۔ بصورتِ دیگر حال ہی میں امریکی صحافی پیٹر بینارٹ کی طرف سے جاری کیا گیا انتباہ دْرست قرار پائے گا: ’’امریکیوں کی حیثیت سے ہمارے ہاتھوں پر خون پھیلا ہے کیوںکہ یہ ہمارے ہی ہتھیار ہیں جو اِن (فلسطینی) بچوں کی بھوک سے مرنے کے ذمے دار بنے۔‘‘
اِس دوران خان یونس کے پیاسے ننھے بچے پانی کے چند قطرے پینے کا انتظار کرتے اور غزہ شہر کے کمزور ہوتے ڈاکٹر کھانے کے لیے معیاد ختم ہونے والی غذاؤں کے چند ڈبے پانے کی خاطر تڑپتے رہیں گے۔