ملاقات سے قبل ٹرمپ نے نیویارک میں عرب اور مسلم رہنماؤں کے ساتھ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے 21 نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر لکھا کہ مشرق وسطیٰ امن کے لیے “کچھ خاص ہونے والا ہے”۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “ہم یہ کام کر دکھائیں گے”، جبکہ نیتن یاہو نے اقوام متحدہ سے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ وہ “غزہ میں جنگ ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں”۔
ماہرین کے مطابق نیتن یاہو کے پاس ٹرمپ کے منصوبے کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ امریکا اور ٹرمپ تقریباً واحد اتحادی رہ گئے ہیں۔
اسرائیل میں بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل کر حکومت سے جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یرغمالیوں کے اہلِ خانہ نے براہِ راست ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ وہ نیتن یاہو پر دباؤ ڈالیں تاکہ “ایک مکمل اور جامع معاہدہ ہو جو جنگ ختم کرے اور یرغمالیوں کو رہا کرائے”۔
عالمی سطح پر بھی اسرائیل کو دباؤ کا سامنا ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک نے باضابطہ طور پر فلسطین کو تسلیم کر لیا ہے۔
ٹرمپ کے 21 نکاتی منصوبے میں مستقل جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی افواج کا غزہ سے انخلا اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی شامل ہے۔