امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کی سفارت کاری میں بڑی پیش رفت کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ بحران کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مستقل جنگ بندی کے قیام کی سمت مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔
ٹرمپ نے یہ بیان حالیہ دنوں میں عرب اور مسلم رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی تفصیلی بات چیت کے بعد دیا، جس میں ان کی انتظامیہ نے غزہ جنگ ختم کرنے کے لیے 21 نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا۔ یہ مذاکرات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر نیویارک میں ہوئے۔
اتوار کو اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’’ٹروتھ سوشل‘‘ پر ٹرمپ نے کہا کہ یہ وقت ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس مشرق وسطیٰ کو عظیم بنانے کا اصل موقع ہے۔ پہلی بار سب کسی خاص چیز کے لیے ایک پیج پر ہیں۔ یہ کام ہم مکمل کرلیں گے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں امن معاہدے کا تاریخی موقع ہے اور وہ یہ کرکے دکھائیں گے۔
آج وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے اسرائیلی وزیراعظم کی ملاقات ہوگی جس کا مقصد جنگ بندی معاہدے کا فریم ورک طے کرنا ہے۔
رپورٹس کے مطابق نیتن یاہو سے ملاقات میں معاہدے کو حتمی شکل دیے جانے کی اُمید ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو رائٹرز کو دیے گئے ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے ان کی جانب سے پیش کردہ تجویز پر انہیں بہت اچھا ردعمل ملا ہے، اور وہ پُر امید ہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو بھی پیر کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے دوران اس منصوبے کی حمایت کریں گے۔
صدر ٹرمپ نے بتایا کہ امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور اُن کے داماد جیرڈ کشنر، جو ان کی پہلی مدتِ صدارت میں مشرق وسطیٰ کے ایلچی رہ چکے ہیں، نیویارک میں نیتن یاہو کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ پیر کی اعلیٰ سطحی ملاقات سے قبل معاہدے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
گزشتہ ہفتے جب عالمی رہنما اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے سلسلے میں نیویارک میں موجود تھے، تو امریکا کی جانب سے 21 نکاتی مشرقِ وسطیٰ امن منصوبہ پیش کیا گیا تھا جس کا مقصد تقریباً دو سال سے جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا خاتمہ ہے۔
ایک وائٹ ہاؤس اہلکار کے مطابق اس منصوبے میں تین مرکزی نکات شامل ہیں جن میں تمام مغویوں (زندہ یا مردہ) واپسی، قطر پر مزید اسرائیلی حملوں کا خاتمہ، اور اسرائیل و فلسطینیوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لیے نیا مکالمہ ہے۔
تاہم حماس کے ایک نمائندے نے ہفتے کو بتایا تھا کہ اُنہیں اقوامِ متحدہ میں پیش کیا گیا امریکی منصوبہ تاحال موصول نہیں ہوا۔
صدر ٹرمپ نے سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن اور دیگر علاقائی طاقتوں کے رہنماؤں کا اس امن عمل میں کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ نہ صرف غزہ جنگ کو ختم کرے گا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں وسیع تر امن کی طرف بھی ایک اہم پیش رفت ہوگا۔
غزہ میں اسرائیلی حملے جاری
دوسری جانب غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری جاری ہے۔ 24 گھنٹوں میں مزید 79 فلسطینی شہید اور 379 زخمی ہوگئے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے رہائشی عمارتوں، پناہ گاہوں اور خیمہ بستیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ غزہ میں شہدا کی مجموعی تعداد 66 ہزار 5 ہوگئی ہے۔
ایک لاکھ 69 ہزار 162 فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی حملے میں دو یرغمالیوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ القسام بریگیڈ کا کہنا ہے حملے کے بعد دو یرغمالیوں سے رابطہ نہیں ہوا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ حملے رُکیں تو یرغمالیوں کو خطرے سے نکالیں گے۔