امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ جنگ بندی کے حوالے سے بڑے اعلانات کیے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد منعقدہ مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ نیتن یاہو نے ان کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کو قبول کرنے کی آمادگی ظاہر کر دی ہے اور اگر حماس بھی اس کو تسلیم کر لیتی ہے تو تمام اسرائیلی یرغمالی 72 گھنٹے کے اندر رہا ہوں گے۔
صدر ٹرمپ نے نیتن یاہو کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اسرائیل نے اس تجویز کو غور سے سنا ہے اور اس پر اصولی اتفاق کر لیا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے یہ معاہدہ نہ مانا تو اسرائیل کو اپنی فوجی طاقت استعمال کرنے کا حق حاصل ہے، اور امریکا اس کی ہر ممکن مدد کرے گا۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر تمام یرغمالی رہا ہو جائیں تو جنگ خود بخود ختم ہو جائے گی۔ مزید کہا کہ عرب اور مسلم ریاستیں غزہ کو غیر عسکری زون بنانے پر متفق ہو گئی ہیں اور ایک نیا عبوری انتظامی ڈھانچہ بنایا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ خود غزہ کی تعمیر نو اور بین الاقوامی نگرانی کے نگران “بورڈ آف پیس” کے سربراہ ہوں گے، اور اس ذمہ داری کو انہوں نے قبول کیا ہے کیونکہ فریقین نے ان کو اس کا اہل قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ”یقین کریں، میں بہت مصروف ہوں، لیکن پھر بھی میں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی ہے۔“
صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کو ایک سنگ میل قرار دیا، جس کا مقصد غزہ میں دیرپا امن قائم کرنا اور خطے کو مزید عدم استحکام سے بچانا ہے۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ پاکستان کے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل پاکستان نے بھی معاہدے کی 100 فیصد حمایت کی ہے، عرب اور مسلم ملکوں کا بھی شکریہ جنھوں نے تجاویز پر کام کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امیر قطر غیر معمولی شخصیت کے مالک ہیں، عرب اور مسلم ممالک غزہ کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اسرائیل اپنے یرغمالیوں کی فوری واپسی چاہتا ہے.
ٹرمپ نے مزید کہا کہ حماس سے مسلم ممالک بات کریں گے، ٹونی بلیئر امن منصوبے کا حصہ ہوں گے، ٹونی بلیئر کے علاوہ دیگر نام آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے، عرب اور مسلم ممالک کے رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے، فلسطین میں نئی حکومت فلسطینیوں اور دنیا بھر کے ماہرین پر مشتمل ہوگی۔
امریکی صدر نے کہا کہ امن معاہدے کے لیے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے مکمل حمایت حاصل ہے، یورپی سربراہ حیران تھے، پوچھ رہے تھے کیا واقعی ایسا ہورہا ہے؟ ترکیہ اور انڈونیشیا کے صدور میرے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سنا ہے حماس بھی جنگ بندی چاہتا ہے، حماس نے معاہدہ تسلیم کرلیا تو فوری یرغمالی رہا کرنے ہوں گے جو کہ خود ایک جنگ بندی ہے۔