علی اشعر کا خاص مضمون Development and International Cooperation ہے۔ علی اشعر معروف ماہر سماجیات ڈاکٹر سید جعفر احمد کی نگرانی میں کام کرنے والے تحقیقی ادارہ Institute of Historical and Social Research (IHSR) سے وابستہ رہے۔ علی اشعر نے IHSR کے تحت کراچی کے کتابوں کے تاریخی بازار، اردو بازار اور Karachi and the race for world class cities پر تحقیق کی تھی۔ علی اشعر انجم نے پاکستان کو درپیش سماجی اور اقتصادی اربنائزیشن، گلوبلائزیشن، ڈیموگرافی اور پولیٹیکل اکنامی کے موضوعات میں خصوصی دلچسپی لی ہے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد کی نگرانی میں کام کرنے والے ادارہ IHSR نے علی اشعر انجم کی یہ کتاب شایع کی ہے۔
یہ کتاب 10ابواب اور 192 صفحات پرمشتمل ہے۔ علی اشعر انجم نے کتاب کے آغاز پر اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ جب انھوں نے اٹلی کی معروف یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا تو انھوں نے ڈیولپمنٹ اور انٹرنیشنل کو آپریشن کے مضمون کا انتخاب کیا۔ دورانِ تعلیم انھوں نے بہت سے لوگوں کی کہانیاں سنی تھیں۔ ان کہانیوں پر غور و فکر کے دوران مائیگریشن کے مسئلے کی پیچیدہ صورتحال کا اندازہ ہوا تھا۔ بقول اشعر دوسرے سمسٹر کے دوران انھیں پاپولیشن ڈائنامکس اور Demography Deepened کی اہمیت کا اندازہ ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ Brain Drainکی اصطلاح سے ڈاکٹروں، انجنیئروں، اساتذہ اور اہم پیشہ ور شعبوں کے ماہرین کا اچھے مستقبل کی تلاش کے لیے اپنے وطن کو اپنی صلاحیتوں سے محروم کرنے کا احساس ہوتا ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ ہنرمند افراد کی مائیگریشن کی انتہائی گہری وجوہات کا اندازہ ہوتا ہے۔ علی اشعر نے پاکستان میں مائیگریشن کی وجوہات کا تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان میں مائیگریشن کی طویل تاریخ ہے۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی بھارت سے بڑی تعداد میں افراد نے ہجرت کی۔ ایک اندازے کے مطابق 6ملین افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان میں آباد ہوئے۔ یہ لوگ بعد میں مہاجر کہلائے۔
ان میں سے بہت سے افراد اپنے روشن مستقبل کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں آباد ہوئے۔ بہت سے مزدوروں نے 70ء کی دہائی میں کام کے لیے خلیجی ممالک کا انتخاب کیا۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پروفیشنلز یورپی ممالک کی طرف متوجہ ہوئے۔ علی اشعر مزید لکھتے ہیں کہ Brain Drain کا بیانیہ ہمیشہ نقصان کا سودا نہیں ہوتا۔ پاکستان کی ورک فورس اور دانش وارانہ سرمایہ Intellectual Capital نے ترسیلاتِ زر دانش کی منتقلی جیسے فوائد حاصل کیے۔ مصنف نے کتاب کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اور اعلیٰ مہارت کے حامل بہت سے پروفیشنل افراد امریکا منتقل ہوگئے تھے۔
برطانیہ میں اس نقصان کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔ 1960ء میں رائل سوسائٹی نے اس مسئلے پر مفصل تحقیق کرائی اور 1963ء میں یہ تحقیقی رپورٹ Immigration of Scientist from the United Kingdom کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس رپورٹ پر اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی وژن پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ اخبار Evening Standard نے Brain Drain کی اصطلاح سب سے پہلے شایع کی تھی۔ علی اشعر نے Brain Drain کے مثبت اور منفی ہونے پر بھی پہلے باب میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ Brain Drain کو منفی رجحان سمجھا گیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ ماہرین کی امیگریشن کو اس بنیاد پر منفی سمجھا گیا کہ یہ افراد اپنے ملک میں قومی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس مائیگریشن سے اہم شعبوں مثلاً صحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں ٹیلنٹ کی کمی پیدا ہوئی جس سے ترقی کا عمل متاثر ہوا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ Brain Drain اس وقت کسی ملک کے لیے بہتر ثابت ہوسکتا ہے جب یہ پروفیشنلز اور سائنس دان اپنی نالج، مہارت اور ٹیکنالوجی کو اپنے ملک منتقل کریں۔
مائیگریشن کرنے والے سائنس دان اور پروفیشنلز ترقی یافتہ ممالک میں جاتے ہیں تو ان کا Exposureہوتا ہے اور ان کی ذہنی صلاحیتیں اور پروفیشنل اہلیت بہتر ہوتی ہے۔ مصنف نے Brain Drain ماڈرنائزیشن اورگلوبلائزیشن کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں Brain Drain کے رجحان میں تیزی آئی تھی۔ 40ء اور 50ء کی دہائی میں پاکستانی امیگرینٹ کے لیے سب سے پرکشش ملک برطانیہ تھا۔ برطانوی حکومت نے دوسری جنگ عظیم کے بعد مزدوروں کے لیے دروازے کھول دیے تھے۔ خاص طور پر کشمیر سے ہزاروں افراد خوشحال مستقبل کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے۔ اسی طرح 1970ء کی دہائی میں پاکستان کی سیاسی قیادت نے امیگریشن کے رجحان کو تقویت دینے کے لیے بڑا اہم کردار ادا کیا۔
مصنف کا یہ دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی کی بناء پر معاشی ابتری پیدا ہوئی اور صنعت کاروں میں عدم اعتماد کا رجحان تقویت پاگیا۔ ملک کے معاشی حالات خراب ہونے کی بناء پر ملک چھوڑنے کے رجحان کو تقویت ملی تھی۔ 1990ء کی دہائی میں امیگریشن کے رجحان میں پھر ایک نمایاں تبدیلی ہوئی۔ اب تربیت یافتہ مزدوروں کے علاوہ پروفیشنل افراد نے مغربی ممالک کے علاوہ امریکا اورکینیڈا کا رخ کیا تھا۔ مصنف نے انسانی اسمگلنگ کی صنعت اور اس کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ انسانی تجارت کرنے والے اسمگلرز نے زمین، سمندر اور ہوائی راستوں کو غیر قانونی امیگریشن کے لیے استعمال کیا ہے۔
یہ افراد زمینی اور سمندری راستے اور بلوچستان کے پرخطر علاقوں کو استعمال کرتے ہیں۔ بلوچستان سے ہوتے ہوئے ایران، ترکی، یونان اور اٹلی کے راستے یورپی ممالک میں آباد ہونے کی کوشش کرتے ہیں جس سے انسانی المیہ جنم لیتا ہے۔ اس کتاب کے آخر میں ان افراد کی کہانیاں بھی ہیں جو انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ اٹلی جانے والے ایک نوجوان کی داستان زیادہ غمزدہ کردیتی ہے۔ یہ نوجوان مشکل سفر کر کے اٹلی پہنچا تھا جہاں اس نے ڈلیوری بوائے کا کام کیا مگر ایک حادثہ میں وہ اپاہج ہوگیا اور اس کی زندگی کے خواب سارے بکھر گئے۔
علی اشعر کی کتاب اس موضوع پر منفرد کتاب ہے اور اس آرٹیکل میں اس کتاب کا بہت مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ معروف دانشور ڈاکٹر سید جعفر احمد کی نگرانی میں اتنے مشکل موضوع پرکتاب کی اشاعت پر ڈاکٹر جعفر، علی اشعر اور ان کے ادارے کے کارکنان مبارکباد کے مستحق ہیں۔