بھارتی میڈیا کے مطابق طالبان کے 2021 میں افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کابل سے نئی دہلی کا پہلا اعلیٰ سطحی سرکاری دورہ ہوگا، جسے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔
این ڈی ٹی وی ورلڈ کے مطابق طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی 9 اکتوبر کو بھارت کے دورے پر آ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امیر خان متقی کو بین الاقوامی سفری پابندیوں سے عارضی استثنیٰ دیا ہے، جس کے تحت وہ 9 سے 16 اکتوبر کے دوران بھارت میں قیام کر سکیں گے۔
بھارتی حکام کئی مہینوں سے اس ملاقات کی تیاری کر رہے تھے۔ جنوری 2025 سے اب تک دونوں ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان کئی بار بات چیت ہو چکی ہے، جن میں دبئی میں ہونے والی ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔
ان مذاکرات میں افغانستان کو انسانی امداد، صحت کے شعبے میں تعاون اور افغان مہاجرین کی بحالی جیسے معاملات پر بات چیت ہوئی۔
رواں برس مئی میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف ”آپریشن سندور“ کے بعد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور امیر خان متقی کے درمیان پہلی بار براہ راست ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔
اس دوران بھارت نے طالبان کی جانب سے پہلگام حملے کی مذمت پر شکریہ ادا کیا اور افغان عوام سے اپنی ’تاریخی‘ دوستی کا اعادہ کیا۔
واضح رہے کہ طالبان حکومت نے کابل میں بھارتی حکام سے ایک ملاقات کے دوران پہلگام میں ہونے والے حملے کی کھل کر مذمت کی تھی، جسے ماہرین بھارت اور طالبان کے درمیان بڑھتی ہم آہنگی کا اہم اشارہ قرار دے رہے ہیں۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت نے افغانستان کو بڑی مقدار میں امداد فراہم کی ہے، جن میں 50 ہزار ٹن گندم، سیکڑوں ٹن ادویات، ویکسینز، اور دیگر ضروری اشیاء شامل ہیں۔
حالیہ زلزلے کے بعد بھارت نے فوری طور پر خیمے، خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان بھیجا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان انسانی ہمدردی پر مبنی تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امیر خان متقی کا بھارت آنا نہ صرف طالبان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ہے، بلکہ یہ پاکستان کے لیے بھی ایک بڑا سفارتی دھچکا ہو سکتا ہے، جو اب تک افغانستان پر اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوشش کرتا آیا ہے۔
یہ دورہ بھارت کے لیے ایک نیا موقع ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے، دہشت گردی کے خطرات سے نمٹے اور خطے میں پاکستان اور چین کے اثر کو متوازن کرے۔ 10 اکتوبر کو ہونے والی دوطرفہ ملاقات کو ایک اہم سنگ میل سمجھا جا رہا ہے، جو جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی سیاسی تصویر کو نئی سمت دے سکتی ہے۔