اسرائیل کا صمود فلوٹیلا کی آخری کشتی پر بھی قبضہ، یورپ کے مختلف ملکوں میں مظاہرے

0 minutes, 0 seconds Read

اسرائیلی فوج نے جمعہ کے روز غزہ کی جانب پہنچنے والی صمود فلوٹیلا کی آخری کشتی کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق کشتی پر پولینڈ کا جھنڈا نصب تھا جس پر 6 افراد سوار تھے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امدادی مشن کے منتظمین گلوبل صمود فلوٹیلا کے مطابق آخری کشتی میرینیٹ (Marinette) کو جمعہ کی صبح غزہ سے 42.5 ناٹیکل میل (79 کلومیٹر) کے فاصلے پر اسرائیلی بحریہ نے روک لیا۔

اسرائیلی فوجی ریڈیو نے تصدیق کی ہے کہ بحریہ نے کشتی پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے عملے کو حراست میں لے لیا ہے، اور اب کشتی کو اسرائیلی بندرگاہ اشدود کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے۔

گلوبل صمود فلوٹیلا نے ایک بیان میں کہا کہ، “اسرائیلی بحریہ نے ہماری تمام 42 کشتیوں کو غیر قانونی طور پر روک لیا ہے، حالانکہ یہ کشتیاں انسانی امداد، رضاکاروں، اور اسرائیل کی غیر قانونی ناکہ بندی کو توڑنے کے عزم کے ساتھ روانہ ہوئی تھیں۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارت خارجہ نے کشتی کی موجودہ حیثیت پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا ہے۔ البتہ جمعرات کو وزارت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اگر بیڑے کی بچ جانے والی کشتی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کرے گی تو اسے روکا جائے گا۔


AAJ News Whatsapp

اسرائیلی بحریہ نے فلوٹیلا کو متنبہ کیا تھا کہ وہ ایک فعال جنگی زون کی جانب بڑھ رہی ہے اور قانونی ناکہ بندی کی خلاف ورزی کر رہی ہے، اس لیے انہیں راستہ بدلنے کا کہا گیا تھا۔

اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں نہ صرف فلوٹیلا کی تمام کشتیوں کو روک لیا گیا ہے بلکہ اس اقدام نے ایک بار پھر دنیا بھر میں غزہ کی ناکہ بندی اور وہاں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر بین الاقوامی توجہ مرکوز کر دی ہے۔

واضح رہے کہ یہ قافلہ 31 اگست کو اسپین سے روانہ ہوا تھا اور اس دوران مختلف ممالک کی کشتیاں اس میں شامل ہوتی گئیں۔ اسرائیلی بحریہ نے فلسطینی حدود سے تقریباً 70 ناٹیکل میل کی دوری پر قافلے کو نشانہ بنایا تھا۔

صیہونی افواج نے تقریباً 450 کارکنوں کو حراست میں لیا ہے، جن میں سویڈن کی معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ گرفتار رضاکاروں میں پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب کشتیوں کو قبضے میں لینے اور گرفتاریوں کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج جاری ہے۔

Similar Posts