شیل اور اب پی اینڈ جی: ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان سے کیوں جارہی ہیں؟

0 minutes, 0 seconds Read

امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشن پروکٹر اینڈ گیمبل (پی اینڈ جی) کے پاکستان میں تجارتی سرگرمیاں بند کرنے کے حالیہ اعلان کے بعد یہ سوال موضوع بحث ہے کہ آیا دنیا کی بڑی کمپنیاں پاکستان سے کیوں جارہی ہیں۔ اس معاملے پر ماہرین مختلف رائے کا اظہار کررہے ہیں۔

جمعرات کو پی اینڈ جی نے پاکستان میں اپنی پیداوار بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ری اسٹرکچرنگ پروگرام کے تحت ’تھرڈ پارٹی ڈسٹری بیوٹرز‘ پر انحصار کرے گی۔ یہ خبر ایسے وقت میں سامنے آئی، جب گزشتہ تین برس میں کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ چکی ہیں، جن میں ایلی لِلی، شیل، مائیکروسافٹ، اوبر اور یاماہا شامل ہیں۔

کیا یہ رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کا معاشی ماحول ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے غیر موزوں ہے یا اس کے دیگر اسباب ہیں؟ اس حوالے سے جانتے ہیں کہ ماہرین کی کیا رائے ہے۔

’کمپنیوں کی اپنی وجوہات ہوتی ہیں‘

معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی خُرم حسین کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پاکستان میں کاروبار سمیٹنے کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ ان کمپنیوں کی اپنی ری اسٹرکچرنگ کا حصہ ہے۔

انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ کی رپورٹ کے مطابق خرم حسین نے شیل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ کمپنی نے میکسیکو اور انڈونیشیا سمیت پاکستان میں ریٹیل فیول بزنس سے انخلا کیا ہے اور دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی ریٹیل انرجی سے نکل رہے ہیں۔

پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) کے سی ای او احسان ملک نے بتایا کہ ملٹی نیشنلز کمپنیوں کے انخلا کی متعدد وجوہات ہیں اور ان کی نوعیت ہر شعبے میں مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ دواسازی کے شعبے میں فارما سوٹیکل ملٹی نیشنل کارپوریشنز (ایم این سیز) قیمتوں میں تبدیلی کی منظوری میں تاخیر اور کچھ مقامی کمپنیوں کی ناقص پروموشنل پالیسیوں کی وجہ سے ملک چھوڑ دیتی ہیں جب کہ شیل اور پی این جی جیسی کمپنیاں عالمی سطح پر کاروباری رجحان کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مقامی کمپنیوں سے بڑھتی مسابقت، وسیع غیر رسمی شعبہ جات اور کم ہوتے منافع گروپ کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں، جن کے ساتھ بڑھتے ٹیکس اور روپے کی قدر میں گراؤٹ کی وجہ کاروبار ختم کرنے کے اسباب ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ کمپنیاں اکثر ’سیکیورٹی صورت حال‘ کا بھی حوالہ دیتی ہیں لیکن کم غیر ملکی افراد کے ساتھ مقامی انتظامیہ نے حالات سے نمٹنا سیکھ لیا ہے۔

احسان ملک نے کہا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کسی ملک سے جانے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مصنوعات اور برانڈز کی پیداوار بند کررہے ہیں۔ دوسری صورت میں کمپنیاں ڈسٹری بیوٹر ماڈل اپنالیتی ہیں یا ایم این سیز اپنے برانڈز کو فروغ دینے کے لیے تھرڈ پارٹی مارکیٹ ریسرچ اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیز پر انحصار کر سکتی ہیں۔


AAJ News Whatsapp

پروکٹر اینڈ گیمبل (پی اینڈ جی) نے پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کے ری اسٹرکچرنگ پلان کے تحت اعلان کیا ہے کہ متاثرہ ملازمین کو یا تو کمپنی کے دیگر بین الاقوامی آپریشنز میں مواقع فراہم کیے جائیں گے یا پھر انہیں مقامی قوانین، کمپنی پالیسیوں اور ادارے کی اقدار کے مطابق علیحدگی پیکج دیا جائے گا۔

پی اینڈ جی کے مطابق پاکستان میں کمپنی کا پورٹ فولیو عالمی سطح پر پہچانے جانے والے برانڈز پر مشتمل ہے، جن میں پیمپرز، ایریل، آلویز، سیف گارڈ، ہیڈ اینڈ شولڈرز، پینٹین، اولے اور وِکس شامل ہیں۔ تاہم کمپنی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کتنے پیداواری یونٹس یا ملازمین اس فیصلے سے براہِ راست متاثر ہوں گے۔

’اسٹریٹجک تبدیلیاں‘

اے کے ڈی سیکیورٹیز کے ریسرچ ڈائریکٹر اویس اشرف کے مطابق ہر ملک میں مینوفیکچرنگ سہولت قائم رکھنے کے بجائے کئی کمپنیاں اسٹریٹجک تبدیلی کے تحت اپنے آپریشنز کو ریجنل حب میں منتقل کر رہی ہیں تاکہ وہ اکانومیز آف اسکیل سے فائدہ اٹھا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ مقامی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی بڑھتی صلاحیت، زیادہ ہنر مند ورک فورس اور جدید ٹیکنالوجیز کے استعمال نے یہ سہولت دی ہے کہ فزیکل موجودگی کے بغیر بھی مصنوعات کی ہموار تقسیم ممکن ہوسکتی ہے۔

Similar Posts