قطر حملے کے بعد نیتن یاہو لچک دکھانے پر کیسے مجبور ہوئے؟ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں انکشاف

0 minutes, 0 seconds Read

قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی فضائی حملے کے بعد امریکا اور عرب ممالک کے دباؤ نے نیتن یاہو کو ’غزہ امن منصوبے‘ پر لچک دکھانے پر مجبور کیا۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ گزشتہ ماہ ستمبر میں اسرائیلی حملے نے قطر میں غزہ پر مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا جس پر خطے اور واشنگٹن سے شدید ردِعمل سامنے آیا۔

امریکی دباؤ کے باوجود نیتن یاہو نے منصوبے کی کئی شقوں میں ترامیم کرا کے اسرائیل کے حق میں خاص طور پر غزہ سے انخلا اور فلسطینی ریاست کے ذکر پر تبدیلیاں شامل کیں۔

20 دن بعد وہ منظر جس کی کسی کو توقع نہ تھی

20 روز بعد ایک حیرت انگیز لمحے میں، نیتن یاہو اور ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں ایک ساتھ کھڑے امن منصوبے کا اعلان کر رہے تھے۔

ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں اس دن کو ”تاریخ کا عظیم ترین دن“ قرار دیا، جبکہ نیتن یاہو نے محتاط زبان میں کہا کہ یہ منصوبہ ”ہمارے جنگی مقاصد کے مطابق ہے“۔


AAJ News Whatsapp

یہ وہی نیتن یاہو تھے جنہوں نے چند روز قبل دوحا میں جاری مذاکرات کو میزائلوں سے خاموش کرانے کی کوشش کی تھی۔

پسِ پردہ سفارت کاری: میامی سے دوحا تک

اس ساری پیشرفت کے پیچھے ایک پیچیدہ اور خفیہ سفارتی عمل جاری تھا۔ 8 ستمبر کو امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے میامی میں واقع محل میں ایک اہم ملاقات ہوئی، جس میں ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور اسرائیلی مشیر رون ڈرمر شریک ہوئے۔ ان تینوں نے کئی گھنٹوں تک مجوزہ امن منصوبے کی شقوں پر بحث کی، تاکہ بعد میں قطر کے ذریعے حماس کے سامنے پیش کیا جا سکے۔

اسی رات ڈرمر نے دوحہ میں ایک قطری عہدیدار سے طویل فون کال کی۔ لیکن صرف 12 گھنٹے بعد، اسرائیل نے وہی مقام نشانہ بنا ڈالا جہاں مذاکرات ہو رہے تھے۔ قطر، جو جنگ کے آغاز سے ہی مصر کے ساتھ ایک ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے، اس حملے سے سخت نالاں ہوا۔

نیتن یاہو کی لچک، لیکن اپنے شرائط پر

امن منصوبے کی چند شقوں کو نیتن یاہو نے نرم کر کے اپنے سیاسی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے، جس سے انہیں مستقبل میں حالات کو اپنی مرضی سے چلانے کی گنجائش مل گئی ہے۔ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے قطر، اسرائیل اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ خفیہ سفارتی بات چیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔

حماس کا غیر متوقع قدم

حملے کے باوجود، امن منصوبے پر سفارت کاری جاری رہی۔ بالآخر، جمعے کی شب حماس نے اعلان کیا کہ وہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر تیار ہے، بشمول اُن کی لاشیں جو دورانِ قید جاں بحق ہو چکی ہیں۔ یہ اعلان ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے کے تحت سامنے آیا، جس میں 20 نکات شامل ہیں۔

تاہم، حماس کے بیان میں اس منصوبے کے چند اہم نکات — خصوصاً ہتھیار ڈالنے اور مستقبل میں عدم مزاحمت کی یقین دہانی — شامل نہیں تھے۔ اسرائیل اور امریکا کے لیے یہی نکات سب سے زیادہ اہم ہیں، اور ان کی غیر موجودگی منصوبے کی کامیابی پر سوالیہ نشان بن گئی ہے۔

نیتن یاہو کا دوہرا رویہ

امن منصوبے کی حمایت کے باوجود، نیتن یاہو نے اس میں چند ایسی ترامیم کی ہیں جو انہیں جنگ جاری رکھنے کی گنجائش دیتی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف سیز فائر کی شرائط کو نرم کیا، بلکہ بعض معاملات میں مکمل خاموشی اختیار کی ہے، جیسے کہ اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا، فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور حماس کو بیرونِ ملک محفوظ راستہ دینا۔

یہی رویہ ان کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کو بچانے کے لیے ضروری ہے، لیکن یہی وہ رکاوٹیں بھی ہیں جو امن منصوبے کو غیر یقینی بنا رہی ہیں۔

کیا یہ سب کچھ دائمی امن کا پیش خیمہ ہے؟

مشرقِ وسطیٰ میں اس سے پہلے بھی کئی امن منصوبے آئے اور ناکام ہو گئے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار عرب و مسلم ممالک کی متحدہ حمایت، امریکہ کا فعال کردار، اور اسرائیل کی جزوی لچک ایک منفرد موقع فراہم کر رہی ہے۔

ڈاکٹر نیڈ لازاروس، جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر، کا کہنا ہے ”چاہے یہ منصوبہ کامیاب ہو یا نہ ہو، لیکن اسرائیل، امریکا اور عرب دنیا کو ایک ساتھ ایک میز پر لانا ٹرمپ انتظامیہ کی اب تک کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی ہے۔“

Similar Posts