ہتھیار قائم ہونے والی خودمختار فلسطینی ریاست کے حوالے کریں گے، حماس کا اعلان

0 minutes, 0 seconds Read

فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار ایک قائم شدہ خودمختار فلسطینی ریاست کے حوالے کردے گی۔

یہ اہم پیشرفت قاہرہ میں ثالثوں کے ساتھ جاری مذاکرات کے دوران سامنے آئی ہے جہاں حماس نے امریکا کو ہتھیار ڈالنے کے حوالے سے اپنے فیصلے سے بھی آگاہ کیا ہے۔

عرب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حماس کے رکن نے کہا کہ اسرائیل مسلسل بمباری اور تباہی سے ٹرمپ کے امن منصوبے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امن منصوبے پر مذاکرات تیز رفتار اور جامع ہوں گے جسے جلد از جلد مکمل کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔

حماس کے رہنما ابو مرزوق نے کہا کہ غزہ کا مستقبل قومی مسئلہ ہے اور صرف حماس اس پر فیصلہ نہیں کرے گی، اس سلسلے میں ثالثوں کے ذریعے تفصیلی مذاکرات ناگزیر ہیں۔

تنظیم نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کے لیے پرعزم ہے لیکن اسرائیل کے سیاسی جال میں نہیں پھنسے گی۔

حماس نے اسرائیل کی غزہ پر مسلسل بمباری اور صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کو سبوتاژ کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

حماس نے مزید کہا کہ مذاکرات جلد اور جامع انداز میں ہوں گے اور معاہدے پر طے پانے کے بعد فوری عمل درآمد کیا جائے گا کیونکہ یہ تنظیم کے مفاد میں ہے۔

حماس نے ثالث فریقین کو یرغمالیوں کی فہرست فراہم کر دی ہے اور کہا ہے کہ تمام زندہ یرغمالیوں کو ایک ہی بار واپس کیا جائے گا۔ تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی لاشیں جمع کرنا شروع کر دی ہیں اور ان کی حوالگی کے لیے اسرائیل سے بمباری فوری طور پر روکنی ہوگی۔

حماس نے انتباہ کیا کہ ”اسرائیل جانتا ہے کہ ہمارے پاس کتنے یرغمالی زندہ اور مردے ہیں۔“

تنظیم نے بتایا کہ امریکا نے قطر کے ذریعے انہیں ضمانت دی ہے کہ ان کے رہنماؤں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، جس کی روشنی میں وہ مختلف مذاکراتی نکات پر رضامندی ظاہر کر چکے ہیں۔

حماس نے مزید کہا کہ وہ اپنے ہتھیار بین الاقوامی نگرانی کے تحت رکھنے اور بعض ہتھیار فلسطینی و مصری انتظامی اداروں کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے، تاہم اس عمل کو پیچیدہ اور وقت طلب قرار دیا ہے۔

تنظیم نے زور دیا کہ جب تک فضائی حملے بند نہیں ہوں گے، یرغمالیوں کی رہائی ممکن نہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کے بعد فوری اور بغیر تاخیر کے عملدرآمد کی خواہاں ہے، مگر مکمل یقین دہانی دینا مشکل ہے۔

یہ پیشرفت فلسطینی مفاہمت اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک اہم قدم سمجھی جا رہی ہے، تاہم اسرائیلی بمباری اور سیاسی مشکلات اب بھی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

Similar Posts