اس سے زیادہ کچھ نہیںہوتا کہ قدرتی آفات کو یادکرکے صرف افسوس کا ظہار کر لیا جاتا ہے۔ عملی کام کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔ یہ من حیث القوم ہمارا المیہ رہا ہے کہ سوائے تقریریں جھاڑنے،پالیسیاں بنانے،تجاویزپیش کرنے اورباتیں بنانے کے عملی اقدامات سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ ہمارے برعکس ترقی یافتہ ممالک کسی بھی سانحے سے ناصرف سبق لیتے ہیں بلکہ آئندہ کے لیے ٹھوس پیشگی اقدامات بھی کرکے کسی بھی قدرتی حادثے کاحجم کم سے کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ہم نے تباہ کن سیلاب کا سامنا کیا ہے۔ کشمیر، بونیر،صوابی، باجوڑ، سوات، شانگلہ، دیر، بٹگرام،مانسہرہ اورپھر پنجاب میں سیلاب سے آٹھ سوسے زیادہ لقمہ اجل بن گئے ، گھروں اور پلوں کی تباہی اورہیلی کاپٹرحادثے میں شہید ہونے والے ریسکیو ٹیم کے ممبران کے لیے دل بہت دکھی ہے۔
یہ سانحات ایک تکلیف دہ یاددہانی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اب ہمارے گھروں کے اندرداخل ہوچکی ہے،پاکستان میں یہ آفات اب کبھی کبھار وادرد ہونے والا واقعہ نہیں رہیں بلکہ معمول بن چکی ہیں۔ اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے عملی اقدامات میں تاخیر کرتے رہے توصرف اگلے پانچ سال کے اندرہماری اس بے عملی کے نتیجے میں ہونے والے ممکنا نقصان کا اندازہ 250 ارب ڈالرتک پہنچ سکتا ہے،صرف اکیلے سیلاب سے 2050 تک پاکستان کو60 ارب ڈالرکے نقصان اُٹھانا پڑ سکتا ہے۔ رواں سال کے کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کوموسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک قرار دیا گیا ہے حالانکہ پاکستان کاحصہ موسمیاتی تبدیلی کاباعث بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں صرف 1فی صد ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کاواضح مطلب یہ ہے کہ زمین کی فطری موسمی حالتوں میں تیز رفتار تبدیلیاں آنا، جیسے درجہ حرارت میں اضافہ، طوفانوں کی شدت میں اضافہ،بارشوں کی غیرمتوقع نوعیت اوردیگر موسمی حالات میں بے ترتیبی وغیرہ۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید طور پر متاثر ہو رہاہے جو اس کے زراعت،معیشت اور عوامی زندگی پرگہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔یہ بھی پیش نظر رہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی اصل وجہ محض درختوں کی کٹائی نہیں بلکہ عالمی سطح پرگرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں درختوں کی کٹائی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ’جیسے کہ سیلاب‘ کوکئی گنا بڑھا دیتا ہے،اس لیے اس پرتوجہ دینا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ دونوں عوامل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اوردونوں پر ہی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے پیچھے محض درختوں کا کٹائی ہی واحد وجہ نہیں ہے بلکہ اس کے کئی دیگر پیچیدہ اور قابل پیمائش عوامل بھی ہیں۔
پاکستان دنیاکے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں اسے دو بڑے موسمی نظاموں کے اثرات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ ایک نظام زیادہ درجہ حرارت اورخشک سالی جیسے مارچ میں گرمی کی لہرکا سبب بن سکتا ہے اوردوسرا مون سون کی بارشیں لے کرآتا ہے۔ دس سال کے عرصے میں ہم نے اس چیلنج سے نبردآزماہونے کے لیے کچھ نہیں کیا جس کی جانب عالمی برادری نے ہماری توجہ مبذول کروائی تھی۔ پاکستان جیسے ممالک کو زد میں لینے والی موسمیاتی تباہ کاریوں کی تیز رفتار اور ہولناک نوعیت کے پیش نظر مضر صحت گیسوں کے عالمی اخراج کے اہداف اورتلافی پر ازسرنوغور کیا جاناچاہیے۔
عالمی حدت دنیاکے وجودکو درپیش ایک بحران ہے اورپاکستان کوگراؤنڈ زیروکی حالت درپیش ہے حالانکہ گرین ہاؤس گیس کے اخراج کے ضمن میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ دنیاکے کاربن اثرات میں اتناکم حصہ ڈالنے والے ممالک کی بہت کم تلافی کے ساتھ بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ حکومت نے گذشتہ دس برس کے دوران ایک بار بھی موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان کی سلامتی کواس سے لاحق خطرے کو ملک کی سفارت کاری کا مرکز و محورنہیں بنایا۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر بین الاقوامی فورمز میں چین کی ’جوعالمی سطح پر27 فیصد حصہ کے ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ایک بڑا محرک ہے‘ مخالفت نہیں کر سکتا۔ لیکن چین اس حوالے سے واحد ملک نہیں جو مُضر گیسوں کے اخراج میں سر فہرست ہیں۔ لہذا اس جانب توجہ مبذول کرانا ضرور ہے۔
ایسا نہیں کہ اگر پاکستان دنیا کی توجہ اس اہم مسلے کی جانب مبذال کراتا ہے تو چین پاکستان تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ تمام عالمی طاقتوں کو ’جن میں چین بھی شامل ہے‘ اس عالمی مسلے سے نمٹنے کے لئے مشترکہ کوششوں پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی اور پاکستان بھی ان کوششوں میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
اسی صورت حال کے تناظر میں دیگر وجوہ میں مون سون پیٹرن میں تبدیلی بھی شامل ہے ،کیوں کہ عالمی حدت کے باعث مون سون کے عمومی رویئے اور پھیلاو میں تبدیلی آئی ہے۔ یہ تبدیلی جنگلات کی کٹائی سے کہیں بڑے پیمانے پر ہونے والی عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کانتیجہ ہے۔ بڑے پیمانے کے ماحولیاتی نظام جیٹ اسٹریمز،ایل نینو اورلانینا جیسے واقعات اور بحرہند میں درجہ حرارت کا بڑھناخطے کے مون سون کے پیٹرن کوبراہ راست متاثرکرتے ہیں، ان عوامل درختوں کی کٹائی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔
اسی تسلسل میںملاکنڈ اورہزارہ میں حالیہ واقعات درحقیقت موسمیاتی تغیرات اورشدید موسمی واقعات میں عالمی اضافے کی ایک علامت ہے،گرم ترین ماحولیاتی ماحول، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، ہوا کی بخارات کو جذب کرنے کی صلاحیت کو بڑھا دیتا ہے۔ اس صورت میں جب بارش ہوتی ہے تو یہ زیادہ مقدار میں اور زیادہ شدت کے ساتھ ہوتی ہے جبکہ بادل پھٹنے اورفلش فلڈنگ جیسی صورتیں بھی پیداہوتی ہیں۔
بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کی وجہ سے آبی چکریعنی واٹرسائیکل میں بگاڑکے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار، غذائی پیداواراورکروڑوں لوگوں کاذریعہ معاش پہلے ہی متاثرہوچکا ہے، حال ہی میں یورپی تھنک ٹینک ’’جرمن واچ ‘‘ کی جانب سے جاری کی گئی کلائمیٹ رسک انڈیکس 2025 رپورٹ کے مطابق پاکستان 2022 میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ خطرے کا شکار ملک ہے۔
پاکستان کے موسمیاتی تغیرکے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ملک ہونے کا ثبوت یوں ملتا ہے کہ 2022 میں موسلا دھار بارشوں،گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے سے پانی کے بہہ نکلنے اور دیگرعوامل کی بنیاد پر خطرناک سیلاب آئے تھے۔ 2022 میں گلیشیائی جھیلوںکے پھٹنے کے واقعات رونما ہوئے، پاکستان میں تین ہزار سے زائد ایسی جھیلیں ہیں جوگلیشیئرزکی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ ان میں سے 33 جھیلوں کے پھٹ کر پانی بہہ نکلنے کا بہت زیادہ خطرہ ہے جس کے نتیجے میں70 لاکھ سے زائد لوگوں کی زندگی کوخطرہ لاحق ہوجائے گا، یہ اعداد وشماربہت بلند اورپریشان کْن ہیں اوراسی لیے پاکستان گلیشیئل پروٹیکشن اینڈ ریزیلیئنس فریم ورک کے سلسلے میں کیا جانے والاکام بہت بروقت اقدام ہے، 2022 کے سیلاب کے بعد پاکستان سے10ارب ڈالرکے وعدے کیے گئے تھے مگراس کاایک تہائی ہی وصول ہوسکا ہے۔
گلیشیئرعالمی آب وہوا کو منظم رکھنے اور اربوں انسانوں کی بقا کے لیے ضروری تازہ پانی کی فراہمی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ تاہم انیسویں صدی سے جاری انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والے موسمیاتی تغیرکے باعث یہ اہم ترین وسائل تیزی سے پگھل رہے ہیں،اقوام متحدہ نے 2025 کوگلیشیئرزکے تحفظ کا عالمی سال قراردیا ہے،اس کامقصدگلیشیئرزکی اہمیت کواجاگرکرنا اوراس بات کویقینی بنانا ہے کہ ان گلیشیئرز پرانحصارکرنے والے اور برف کے پگھلنے سے متاثر ہونے والوں کو پانی،موسم اورموسمیاتی تغیر کے حوالے سے ضروری خدمات مہیا ہو سکیں۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں گلیشئیرزکے پگھلاؤ کی رفتار مسلسل تیز ہو رہی ہے۔ گلگت بلتستان سات ہزار سے زائد قدرتی گلیشئیر کا مسکن ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ان گلیشئیرزکوسنگین خطرات لاحق ہیں۔ برف کی مقدارکم ہونے سے پہاڑ نسبتاً خشک ہو چکے ہیں جس کے باعث برفانی تودے گرنے کے واقعات میں اضافہ رہا ہے۔ کبھی کبھار ایک ہی دن میں کئی بارایسا ہوتاہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے انسانی جانوں، املاک، فصلوں ،زرخیز زمین ،درختوں اور مال مویشیوں کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ برف باری میں کمی اور تیزی سے گلیشئیرز پگلھنے کے نتیجے میں جو موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ان سے بڑے آبی بحران کا خدشہ ظاہرکیا جا رہا ہے۔
شمالی علاقوں میں گلیشئیرز قدرت کا ایک انمول تحفہ ہیں۔ جس انداز میں ان کا پگھلاؤ جاری ہے اگر اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہ کئے گئے توآنے والے برسوں میں آزادکشمیر،گلگت بلتستان اورخیبر پختون خوا کے شمالی علاقوں میں بارشوں،کلاؤڈ برسٹنگ، لینڈ سلائیڈنگ اورسیلاب کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ موسمیاتی تبدیلیاں جیسے غیرمعمولی درجہ حرارت اورغیر متوقع بارشیں، زرعی پیداوار پرمنفی اثرات ڈال رہی ہیں۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زراعت پرانحصارکرتا ہے اورجب فصلوں کی پیداوارمتاثر ہوتی ہے تو اس سے نہ صرف کسانوں کی حالت خراب ہوتی ہے بلکہ معیشت پر بھی بوجھ پڑتا ہے۔ اگرچہ حکومت نے عالمی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پالیسی تشکیل دی ہے اورعالمی سطح پرموسمیاتی فنڈزکے حصول کے لیے بھی کوششیں کی ہیں،لیکن اس کے فی الحال خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
ماہرماحولیات ڈاکٹر عمران احمد کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ 2022 کے سیلاب نے جی ڈی پی میں 4 فی صد کمی اور 30 ارب ڈالرسے زائد کا نقصان پہنچایا ہے۔ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے سستی اورقابل رسائی موسمیاتی فنانس کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی فنانس کا بڑا حصہ ترقی یافتہ ممالک میں ہی صرف ہو جاتا ہے جب کہ ترقی پذیر ممالک کو زیادہ سودکی شرح کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کلائمیٹ ریسپانسیوسرمایہ کاری پرسالانہ پبلک سیکٹر پروگرام کا 20 فی صد خرچ کرتا ہے اورعالمی برادری کے ساتھ موسمیاتی اقدامات کے لیے تعاون بڑھانے کے لیے تیار ہے،جب کہ اس سلسلے میں ترقی پذیر ممالک کو 2030 تک 6 ہزار ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
کے پی کے حکومت کلاوڈ برسٹ اور موسمی تغیرات کی تحقیقات کرائے گی
خیبرپختون خواحکومت نے کلاؤڈ برسٹ اورموسمیاتی تبدیلی کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق تحقیقاتی ٹیم صوبے میں حالیہ کلاؤڈ برسٹ پیدا ہونے کے حوالے سے تحقیقات کرے گی۔ تحقیقاتی ٹیم موسمیاتی تبدیلی کی وجوہات کا تعین بھی کرے گی۔ذرائع کے مطابق ٹیم وفاقی وزارت ماحولیات، سپارکو اور پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ کے ماہرین پر مشتمل ہوگی۔ یہ ٹیم بونیراورصوابی سمیت سیلاب زدہ علاقوں کا دیگرعلاقوں سے موسمیاتی موزانہ کرے گی اورموسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سمیت 20 سال کے موسمی ریکارڈکا جائرہ لے کر رپورٹ مرتب کرے گی۔
اسی طرح تحقیقاتی ٹیم سیلاب آنے کی وجوہات اوراس سے علاقوں کو محفوظ بنانے کے اقدامات کا تعین بھی کرے گی۔ دوسری جانب سیکرٹری محکمہ جنگلات شاہد زمان نے بتایاکہ موسمیاتی تبدیلی اورسیلاب زدہ علاقوں میں سیلابی صورتحال کی وجوہات جاننے کے لیے کمیٹی قائم کریں گے۔ شاہد زمان کا کہنا ہے کہ صوبے سمیت ملک بھر میں موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ ترقی یافتہ ممالک کی انڈسٹریز ہیں،گرین گیسز اورموسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے بڑے پیمانے پرشجرکاری کی ضرورت ہے۔
جنگلات کے رقبے میں 18 فی صد کمی
جنگلات کی کٹائی،چراگاہوں کی تباہی،جنگلات میں لگنے والی آگ اور ماحولیاتی تبدیلی سے جڑے خطرات براہ راست تباہ کن سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اورکلاوڈبرسٹ کاباعث بن رہے ہیں،1992 سے اب تک جنگلات کے رقبے میں 18 فی صد کمی ہوچکی ہے جبکہ چراگاہیں صرف 20 سے 30 فی صد تک اپنی ممکنہ بائیوماس پیداکر رہی ہیں جس میں خیبر پختون خواکاحصہ زیادہ ہے۔
1992، 2010 اور 2025 کے تباہ کن سیلاب ثابت کرتے ہیں کہ جنگلات اور چراگاہوں کی تباہی نے بالائی علاقوںکے واٹرشیڈزکو’’سیلابی فیکٹریوں‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے جنگلات محض درخت نہیں بلکہ ماحول،معیشت اورقومی سلامتی کی پہلی دفاعی لائن ہیں،یہ بارش کے پانی کوجذب کرکے فلش فلڈز روکتے ہیں، زیرزمین پانی کو ری چارج کرتے ہیں، زرعی زمین کوکٹاوسے بچاتے اورمعیشت کے لیے پانی اورمٹی کی زرخیزی کو برقراررکھتے ہیں،جنگلات آب و ہوا کا توازن قائم رکھتے ہوئے درجہ حرارت کم اورکاربن کوذخیرہ کر کے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کوکم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ دیہی آبادی کے لیے چارہ،ایندھن،پھل،ادویات اورسیاحت کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کاباعث بنتے ہیں۔
چیف کنزرویٹرمحکمہ جنگلات محمد حیات کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا رقبہ1992 میں 3.78 ملین ہیکٹر سے کم ہو کر2025 میں 3.09 ملین ہیکٹر رہ گیا ہے یعنی جنگلات کے رقبے میں 18 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ جبکہ سالانہ جنگلات کی کٹائی 1992 میں تقریباً 40 ہزار ہیکٹرتھی لیکن حکومت کی مداخلت اور پابندیوں کے باعث کم ہوکر 2025 میں 11ہزارہیکٹرسالانہ ہوگئی ہے۔ لیکن صورت حال اب بھی تشویشناک ہے،عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں سالانہ اب بھی11ہزارہیکٹر کی کٹائی جاری ہے۔
چراگاہوں کارقبہ 60 فی صد سے کم ہوکر58 فی صد رہ گیا ہے، جبکہ چراگاہوں کی بائیوماس پیداوار 100 فی صد ممکنہ پیداوارسے کم ہوکر 20 فی صد رہ گئی ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق چترال میں 1992 سے 2009 کے درمیان 3700 ہیکٹر سے زائد جنگلات ختم ہوگئے اورماہرین خبردارکر رہے ہیں کہ 2030 تک مزید 23 فی صد کمی متوقع ہے۔ کالام سوات میں 1980 اور 1990 کی دہائی میں بڑے پیمانے پرلکڑی کاٹنے سے دریائے سوات کے کیچمنٹ ایریاکو شدید نقصان پہنچا جس نے 1992 اور 2010 کے سیلابوں کومزید تباہ کن بنا دیا۔ بونیرمیں اگست 2025 کے کلاوڈ برسٹ نے اچانک آنے والے سیلاب کوجنم دیا جس نے گھروں،کھیتوں اوربنیادی ڈھانچے کوتباہ کردیا،جنگلات سے محروم پہاڑ بارش کے پانی کوروک نہ سکے۔
بٹگرام میں نازک اراضی ڈھانچے اورجنگلات کی کٹائی نے لینڈ سلائیڈزکوجنم دیا جس نے قراقرم ہائی وے بندکردی اورشمالی پاکستان کا زمینی رابطہ منقطع ہو کررہ گیا۔ باجوڑ میں 2025 کے مہلک کلاوڈ برسٹ سیلاب نے جانی نقصان کے ساتھ ساتھ سڑکیں اورپل بہادیئے۔ مانسہرہ میں باربارکلاوڈ برسٹ سے اچانک سیلاب اور لینڈ سلائیڈزآئیں جب کہ گلگت بلتستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فی صد سے بھی کم رہ گیا ہے جس سے یہ خطہ جنگلاتی آگ اورگلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے خطرات کے لیے نہایت حساس ہوگیا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جنگلات بارش کے نظام کو متوازن رکھتے ہیں، زیرِزمین پانی کو ری چارج کرنے سمیت ڈھلوانوں کومستحکم بناتے ہیں، جب یہ ختم ہوجائیں تو ننگی پہاڑیاں جنگلوں سے ڈھکے علاقوں کے مقابلے میں 5 سے 8 ڈگری زیادہ گرم ہو جاتی ہیں جس سے مون سون کی ہوائیں تیزی سے بلند ہوکر اچانک کلاوڈ برسٹ پیدا کرتی ہیں، بجائے اس کے کہ مسلسل بارش ہو۔ جڑوں کے بغیر مٹی کوسہارا نہیں ملتا، لینڈسلائیڈنگ اورمٹی کے تودے گرنے کے واقعات عام ہوجاتے ہیں جب کہ گلیشیائی جھیلوںکے پھٹنے کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں تقریباً ایک تہائی گھرانے مویشیوں پر انحصار کرتے ہیں لیکن چراگاہوں کی پیداواریت بے جا چرائی اور بد انتظامی کے باعث صرف 20 سے 30 فی صد رہ گئی ہے۔ جو خاندان پہلے جنگلات سے چارہ اور ایندھن حاصل کرتے تھے، وہ اب مزید غیر پائیدار طریقوں پر انحصارکرنے لگے ہیں۔
کلاؤڈ برسٹ کیا ہے؟
کلاؤڈ برسٹ ایک شدید موسمی مظہر ہے جس میں ایک گھنٹے میں 200 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوتی ہے،’’بادلوں کا پھٹنا‘‘ کہلانے والی یہ صورت حال عموماً پہاڑی علاقوں میں شدیدگرج چمک کے ساتھ ہوتی ہے جس سے سیلابی ریلے اور لینڈ سلائیڈنگ کاخطرہ پیدا ہوتا ہے۔ سائنسی دلیل کے مطابق زمین اوربادلوں کے مابین موجود گرم ہوا کی لہر بادلوں کو فوری نمی برقراررکھنے سے روک دیتی ہے جب دباؤناکافی ہوتا ہے تو بادل سے پانی اچانک بڑی مقدار میں گرکرکلاؤڈ برسٹ کا باعث بن جاتا ہے۔ موسمیاتی تغیرات نے اس عمل کی شدت میں اضافہ کردیا ہے کیونکہ بدلتے موسم اورنمی کی مقدار پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ رہی ہے۔
خیبرپختون خوا میں حالیہ کلاؤڈ برسٹ نے شدید تباہی مچائی جس کے نتیجے میں طوفانی بارش،آندھی اورسیلاب نے بونیر،صوابی،مانسہرہ، سوات، شانگلہ، بٹگرام، دیر اور باجوڑ جیسے علاقوں کو شدید متاثرکیا،کلاؤڈ برسٹ کے دوران گھنٹوں میں ہونے والی بارش چند منٹوں میں برس پڑتی ہے جس سے نہ صرف سیلاب بلکہ لینڈ سلائیڈنگ اوردیگر تباہ کاریاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں یہ سیلاب بہت زیادہ طاقتوراوراچانک ہوتا ہے جو بستیوں اور عمارتوں کو تہہ و بالاکر دیتا ہے۔
کلاؤڈبرسٹ کی بنیادی وجوہات میں موسمی تبدیلی، بڑھتی گرمی اور ماحولیاتی توازن کا بگڑنا جیسے عوامل شامل ہیں۔ عام طور پر پہاڑی علاقوں میں بادل پھٹنے کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ گرم اور مرطوب ہوائیں پہاڑوں سے ٹکراکربادلوں تک پہنچتی ہیں اورٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ مل کر بارش کا سبب بنتی ہیں۔ جب یہ بوجھ بڑھ جاتاہے تو بادل ایک ساتھ سارا پانی زمین پر انڈیل دیتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے باوجودکلاؤڈ برسٹ کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ مختصر دورانیے میں ہونے والا ایسا واقعہ ہے جسے سیٹلائٹ یا موسمی ریڈارزکے ذریعے نہیںجانچا جاسکتا۔ پہاڑی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ ایک خوفناک اور تباہ کن طوفان بن جاتا ہے۔
اس مون سون سیزن میں پاکستان کے مختلف علاقوں چکوال، حیدرآباد، گلگت اور چلاس جیسے مقامات پرکلاؤڈ برسٹ کے سنگین اثرات سامنے آئے ہیں۔ چکوال میں ایک کلاؤڈ برسٹ کے باعث 423 ملی میٹر بارش ریکارڈکی گئی جب کہ حیدرآباد میں تقریباً 70 فی صدگلیاں پانی کی لپیٹ میں آگئیں۔ گلگت کے چلاس میں شاہراہ بابوسر پر سیلابی ریلے نے 19 سیاحوں کی جان لے لی اورکئی گاڑیاں بہہ گئیں۔ حال ہی میں خیبرپختون خواکے صوبے میں ایک اورخوفناک کلاؤڈ برسٹ نے تباہی مچائی،بونیرمیں ایک گھنٹے میں 150ملی میٹر سے زائد بارش نے سیلابی اورناہموار ریلے پیداکیے جنہوں نے کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹادیئے۔