رپورٹ کے مطابق لاکھوں پاکستانی غربت کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں،جہاں مہنگائی،کمزور سماجی تحفظ اور محدود مواقع ان کی زندگی کو مزیدمشکل بنارہے ہیں، 2001 میں 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی،جو بتدریج کم ہوکر 2018 میں 21 فیصد تک آگئی۔ تاہم کورونا وبا سیاسی عدم استحکام، اور معاشی جھٹکوں نے اس پیشرفت کو پلٹ دیا۔
2023-24 تک غربت کی شرح 27 فیصدسے تجاوزکرگئی ہے،جبکہ کم آمدن والے ممالک کے معیارکے مطابق تقریباًآدھی آبادی غربت کی زد میں آچکی ہے۔
دیہی علاقوں میں غربت کی شدت سب سے زیادہ ہے، جہاں بلوچستان اور اندرون سندھ میں نصف سے زائدآبادی غربت کی شکار ہے۔
اس کے برعکس، پنجاب اور اسلام آبادمیں غربت کی شرح نسبتاً کم ہے،جو علاقائی عدم مساوات کو واضح کرتی ہے، پاکستان کی انسانی ترقی کی صورتحال بھی تشویشناک ہے، 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہوکر جسمانی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں،جبکہ تعلیمی میدان میں بھی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔
85 فیصد سے زائد ملازمتیں غیر رسمی شعبے میں ہیں، جن میں نہ تو مستقل روزگار ہے، نہ ہی کوئی سماجی تحفظ، خواتین کی اکثریت اسی غیرمحفوظ لیبر مارکیٹ کاحصہ ہے، جو ان کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
مہنگائی،قدرتی آفات اور محدودآمدنی نے عام گھرانوں کی لچک ختم کر دی ہے،صرف 10 فیصدآمدنی میں کمی لاکھوں افرادکو دوبارہ غربت میں دھکیل سکتی ہے۔
عالمی بینک نے صورتحال پر زور دیا ہے کہ صرف معاشی استحکام کافی نہیں، بلکہ پائیدار اور جامع ترقی کی ضرورت ہے، اس کیلیے ضروری ہے کہ پسماندہ علاقوں میں تعلیم،صحت اور بنیادی سہولیات میں سرمایہ کاری کی جائے۔
سماجی تحفظ کے نظام کو بہتر اور مؤثر بنایاجائے،ٹیکس نظام میں اصلاحات لاکر مراعات یافتہ طبقے کو بھی حصہ دار بنایاجائے۔
جب تک ترقی کے ثمرات عام لوگوں تک نہیں پہنچتے،معاشی کامیابی کے دعوے کھوکھلے نظر آئیں گے، پاکستان کی اصل ترقی اس وقت ہوگی جب ہر شہری کی زندگی میں بہتری نظر آئیگی۔