امریکی خبر رساں ادارے ”اسکائی نیوز“ کی ایک تازہ اور تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غزہ میں ”پاپولر فورسز“ نامی ایک مسلح تنظیم کو حماس کے خلاف اسرائیل اور بعض امدادی اداروں کی خفیہ مدد حاصل ہے۔ اس مدد میں نقد رقم، اسلحہ، گاڑیاں اور حتیٰ کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں تعاون بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس گروپ کی قیادت یاسر ابو شباب نامی شخص کر رہا ہے، جو پہلے لوٹ مار کے ایک بدنام گروہ کا سربراہ رہ چکا ہے، اور اب وہ غزہ میں اپنی سیاسی اور عسکری طاقت بڑھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
اسکائی نیوز کی ٹیم نے کئی ماہ تک اس گروہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاپولر فورسز کا مرکز جنوبی غزہ کے ایک نسبتاً محفوظ علاقے میں قائم ہے، جہاں خوراک، طبی امداد، ایک اسکول اور مسجد بھی موجود ہے۔ یہاں تقریباً پندرہ سو افراد مقیم ہیں، جن میں پانچ سے سات سو تک مسلح جنگجو شامل ہیں۔ اندازہ ہے کہ مجموعی طور پر اس گروپ کے پاس غزہ بھر میں تین ہزار کے قریب جنگجو ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس گروہ کے زیرِ اثر علاقہ کرم شالوم امدادی راہداری کے قریب ہے، جس کی وجہ سے وہ امدادی سامان پر قبضہ یا اس کی تقسیم پر کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے بھی گزشتہ سال ایک رپورٹ میں ابو شباب کے گروہ کو “امدادی قافلوں کی لوٹ مار میں ملوث بڑے گروہوں” میں شمار کیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق ان کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ سگریٹ کی اسمگلنگ ہے، کیونکہ اسرائیل نے غزہ میں تمباکو پر پابندی لگا رکھی ہے جس سے قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔
حماس کا بین الاقوامی نگرانی میں ہتھیار ڈالنے کا اعلان
اسکائی نیوز کو ایک نام ظاہر نہ کرنے والے اسرائیلی فوجی نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے ابو شباب کے گروہ کو پیسے، بندوقیں، گاڑیاں اور خوراک فراہم کی۔ مذکورہ فوجی کے الفاظ میں ’سرائیل ان کی مدد کرتا ہے، انہیں ہر چیز دیتا ہے۔‘
اسکائی نیوز کو ملنے والی ویڈیوز میں بھی دیکھا گیا ہے کہ پاپولر فورسز کی گاڑیاں اسرائیلی نمبر پلیٹس کے ساتھ چل رہی ہیں، اور ٹک ٹاک پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں ان کی کارروائیاں اسرائیلی فضائی حملوں کے ساتھ ہم آہنگ دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، 13 اپریل کو رفح کے قریب پاپولر فورسز پر حماس کے جنگجوؤں نے حملہ کیا، اگلے ہی دن اسی جگہ اسرائیلی فضائی حملے میں وہ عمارت تباہ کر دی گئی۔
ماہرین کے مطابق اسرائیل کی اس حکمتِ عملی کا مقصد غزہ میں مزاحمت کو تقسیم کرنا ہے، تاکہ حماس یا دیگر گروہوں کی طاقت کم کی جا سکے۔
بین الاقوامی ماہر امجد عراقی نے اس حوالے سے کہا کہ ’ایسی ملیشیاؤں کی حمایت سے فلسطینی مزاحمت کمزور ہوتی ہے اور مختلف گروہوں میں پھوٹ بڑھتی ہے۔‘
لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے پروفیسر نیوی گورڈن کے مطابق ’یہ منصوبہ غزہ کو مختلف گروہوں میں بانٹنے اور فلسطینی اتحاد کو توڑنے کے لیے بنایا گیا ہے۔‘
اقوامِ متحدہ اور نارویجن ریفیوجی کونسل کے نمائندوں نے خبردار کیا ہے کہ کسی مسلح گروہ کو امداد دینا انسانی قوانین اور غیرجانبداری کے اصولوں کے خلاف ہے۔
اسرائیل نے صمود فلوٹیلا کے مزید 29 کارکن ڈی پورٹ کردیے، رہا ہونے والوں کے ہولناک انکشافات
ان کے مطابق جب کسی گروہ کو امدادی سامان پر براہ راست کنٹرول ملتا ہے، تو وہ اسے اپنے سیاسی یا عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے، جس سے عام شہری متاثر ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے آخر میں اسکائی نیوز نے لکھا ہے کہ پاپولر فورسز کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں غزہ میں ایک نئے طاقتور مگر خطرناک دھڑے کے ابھرنے کا اشارہ دیتی ہیں۔ یہ صورتِ حال نہ صرف امدادی کاموں اور انسانی حقوق کے لیے چیلنج ہے بلکہ مستقبل میں غزہ کے اندرونی استحکام کے لیے بھی سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔