ایم اے جناح روڈ پر دھماکے سے متعلق درخواست: پٹاخوں کی فیکٹری اور گودام علاقے سے منتقل کرنے کا حکم

0 minutes, 0 seconds Read
سندھ ہائی کورٹ نے ایم اے جناح روڈ پر پٹاخوں کے گودام میں دھماکے سے متعلق درخواست پر فیکٹری اور گودام علاقے سے منتقل کرنے کا حکم دیدیا۔

ہائی کورٹ میں ایم اے جناح روڈ پر پٹاخوں کے گودام میں دھماکے میں جاں بحق نوجوان کی والدہ کی پٹاخوں کے غیر قانونی گودام کی منتقلی کی درخواست کی سماعت ہوئی۔

ڈپٹی کمشنر جنوبی نے عدالت میں جواب جمع کروا دیا، جواب میں کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر جنوبی نے حادثے کے بعد قانونی دائرہ اختیار کے مطابق کارروائی کی، مذکورہ عمارت میں پٹاخوں کی دکان کا ابتدائی لائسنس اسسٹنٹ کمشنر کراچی کینٹ نے 1971 میں جاری کیا تھا۔

سول ڈیفنس کا جاری این او سی ریٹیل دکان تک محدود تھا، این او سی کے مطابق دکان میں 25-30 کلوگرام پٹاخے رکھے جاسکتے تھے، این او سی کے برخلاف زائد مقدار میں دھماکہ خیز مواد رکھنے سے حادثے میں جانی و مالی نقصان ہوا۔

عدالت حکم کے مطابق تمام دھماکہ خیز مواد بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مدد سے تلف کردیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر جنوبی نے پٹاخوں کے جاری تمام لائسنس اور این او سی منسوخ کردیے۔

اسسٹنٹ کمشنر صدر نے عمارت کے ڈھانچے کی جانچ کے لئے سی ای او کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کو خط لکھا ہے، مذکورہ عمارت کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں واقع ہے، معاوضے کی ادائیگی سندھ حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے، ڈی سی جنوبی نے اپنی سفارشات اعلیٰ حکام کو ارسال کردی ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ قانون کے تحت رہائشی علاقے میں پٹاخوں کی فیکٹری یا گودام نہیں بنایا جاسکتا، متاثرہ عمارت سے متصل سرکاری اسکول موجود ہے، اطراف میں دیگر عمارتوں رہائشی ہیں۔

عدالت نے پٹاخوں کی فیکٹری اور گودام علاقے سے منتقل کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے ڈی سی جنوبی کے جواب کی بنیاد پر درخواست نمٹا دی۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ 21 اگست کو پٹاخوں کی غیر قانونی فیکٹری میں دھماکے سے درخواست گزار کا ایک بیٹا جاں بحق جبکہ دوسرا زخمی ہوا۔

گنجان آباد علاقے میں آتش گیز اور دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کی شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اطراف کے مکینوں اور عمارت میں موجود دکانداروں کے زندگیوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔

عمارت میں میڈیکل سپلائز کی مارکیٹ ہے جہاں بزرگ اور بیمار افراد خریداری کے لئے آتے ہیں۔ پٹاخوں کی فیکٹری اور گودام میں انتظامیہ بھی سہولت کاری کررہی ہے۔ دھماکے کے مقدمے کے اندراج کے باوجود دھماکہ خیز مواد تاحال ہٹایا نہیں گیا ہے۔

ایکسپلوسیو ایکٹ کے تحت عوامی مقامات پر دھماکہ خیز مواد کی تیاری یا رکھنے کا لائسنس بھی نہیں دیا جاسکتا۔ ذمہ داروں کے تعین کے لئے اعلی سطحی عدالتی یا فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیا جائے۔ پٹاخوں کی تیاری اور گوداموں کو شہری علاقوں سے منتقل کرنے کا حکم دیا جائے۔

Similar Posts