23 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں انہوں نے کہا کہ پانچ درخواست گزار ججوں کے وکیل کا دعویٰ متاثر کن نہیں کہ ججز کے تبادلے پانچ موجودہ ججوں کی طرف سے دی گئی تحریری شکایت کی وجہ سے ہوئے جو انھوں نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان کو، بطور چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل دیئے تھے اور جن میں عدالتی امور میں مداخلت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مبینہ دھمکیوں کا ذکر تھا۔
سپریم کورٹ آئینی بنچ نے 3 کے مقابلے 2 کی اکثریت سے مختلف ہائی کورٹس سے تین ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کی توثیق کی ہے۔
جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں جج کا مستقل تبادلہ دوسری عدالت کے ججز کی سنیارٹی کو متاثر کرتا ہے، یہ نہ صرف اس کورٹ کے ججوں کے لیے ذاتی نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ عدالتی آزادی کے لیے بھی خطرہ ہے۔
اختلافی نوٹ کے مطابق وزارت قانون کی سمری میں ججز کی سنیارٹی اور ٹرانسفر ہونے والے ججوں کے نئے حلف سمیت متعدد مضمرات کو نظرانداز کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان، متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور ٹرانسفر ہونے والے ججوں کے سامنے مکمل اور درست معلومات پیش نہیں کی گئیں۔
یہ اقدامٔ بدنیتی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ممکنہ طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین ججوں کو غیراہم، اس کے ادارتی ڈھانچے کو متاثر کرنے یا اس کے چیف جسٹس کی تقرری کے عمل پر اثرانداز ہونے کیلئے کیا گیا۔
اس تبادلے کا براہ راست اثر سنیارٹی لسٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی ایڈمنسٹریٹو کمیٹی کی تشکیل پر پڑا، جو عدالتی سالمیت کو برقرار رکھنے میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس طرح کی معلومات کو جان بوجھ کر روکنا انصاف کے اصول کی خلاف ورزی، شفافیت اور عدالتی آزادی کے اصولوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔