گریٹا تھنبرگ سمیت درجنوں کارکنان کو “گلوبل صمود فلوٹیلا” کے ذریعے غزہ کے محاصرے کو توڑنے اور امداد پہنچانے کی کوشش پر اسرائیلی حکام نے گرفتار کیا تھا۔ بعدازاں ان تمام کارکنان کو رہائی کے بعد یونان منتقل کر دیا گیا، جہاں فلسطین کے حامی افراد نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حراست میں کارکنان کو تشدد، بھوک اور نیند کی محرومی کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی کارکنان نے الزام لگایا کہ انہیں پنجروں میں بند کیا گیا، مارا پیٹا گیا، آنکھوں پر پٹیاں باندھیں گئیں اور بعض کو زبردستی اسرائیلی پرچم اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔
ایتھنز پہنچنے کے بعد خطاب کرتے ہوئے گریٹا تھنبرگ نے کہا کہ “غزہ میں نسل کشی جاری ہے، بین الاقوامی ادارے فلسطینیوں کو دھوکہ دے رہے ہیں اور جنگی جرائم روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ “ہم پر جو ظلم ہوا وہ اہم نہیں، اصل ظلم وہ ہے جو غزہ میں ہورہا ہے، جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور اسرائیل انسانی امداد روک کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔”