تفصیلات کے مطابق ڈرائی فروٹ شاپس مالکان شہریوں سے من مانے دام وصول کررہے ہیں جس پر شہریوں نے ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے حکام سے فوری کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
شہریوں شکیل شیخ زاہد خان اور رضوان احمد عباسی کا کہنا ہے کہ سردیوں کے آغاز سے قبل منافع خور تاجر من مانا اضافہ کردیتے ہیں مری اور دیگر پہاڑی علاقوں موسم سرد ہونے کی وجہ سے میوہ جات کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
زیادہ تر میوہ جات ایران اور افغانستان سے سمگل ہوکر آتے ہیں جس میں مونگ پھلی 450روپے سے 650روپے فی کلو، چلغوزہ سات ہزار روپے سے چودہ ہزار روپے فی کلو،بادام تین ہزار روپے سے چارہزار روپے فی کلو، کاجو 3 ہزار روپے سے 4ہزار روپے فی کلو، کاغذی اخروٹ 800روپے سے 2000ہزار روپے فی کلو، پستہ 3ہزار روپے سے چار ہزار روپے فی کلو،کشمش 700روپے سے ایک ہزار روپے فی کلو اور ریوڑی 600 روپے سے 800 روپے فی کلو گرام فروخت کی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کسی دکان پر کوئی نرخ نامے آویزاں نہیں اور زیادہ تر پٹھان ڈرائی فروٹس کا کاروبار کر رہے ہیں جنہوں نے منہ مانگے نرخ وصول کرنا شروع کر رکھے ہیں۔ راولپنڈی راجہ بازار کی نرنکاری بازار میں ہول سیل مارکیٹس ہیں جبکہ راولپنڈی کینٹ میں کینیگ روڈ، بنک روڈ اور کشمیر روڈ جبکہ اسلام آباد میں اب پارہ مارکیٹ، جناح سپر مارکیٹ، ایف ٹین مارکیٹ اور پی ڈبلیو ڈی میں ڈرائی فروٹس کی دوکانیں موجود ہیں جہاں غیر معیاری ڈرائی فروٹ مہنگے دآموں فروخت کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب ڈرائی فروٹس مرچنٹ ایسوسی ایشن کے ترجمان نے بتایا کہ خشک میوہ جات کی عالمی مارکیٹ کی طلب تقریباً دس لاکھ 50 ہزار ٹن سالانہ ہے جبکہ پاکستان سے 10ہزار ٹن خشک میوہ جات برآمد کئے جاتے ہیں جن سے سالانہ 100 ملین ڈالر کا زر مبادلہ کمایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایاکہ خشک میوہ جات کی عالمی مارکیٹ کے سالانہ کاروبار کا حجم 35 ارب ڈالر ہے۔ صرف ضلع سوات میں خشک میوہ جات کی پیداوار 73265 ٹن ہے مگر جدید سہولیات اور پراسیسنگ یونٹس کی عدم دستیابی و کمی کے باعث ہر سال تقریباً 34 ہزار ٹن پھل اور خشک میوہ جات خراب ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ اگر حکومت مناسب سہولیات فراہم کرے اور افغانستان و ایران سے خشک میوہ جات کی سمگلنگ روک دی جائے تو ملکی خشک میوہ جات کی پیداوار میں نہ صرف اضافہ بلکہ یہ خشک میوہ جات شہریوں کو سستے داموں بھی دستیاب ہو سکتے ہیں۔