آئی ایم ایف کی ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کیلئے اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز

0 minutes, 0 seconds Read
عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے علاقائی کشیدگی میں ممکنہ اضافے کو معیشت کے لیے خطرناک قرار دے دیا ہے اور رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 194 ارب روپے کا لگ بھگ ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے لیےاضافی ٹیکس کی تجویز دے دی ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان دوسرے اقتصادی جائزے کے سلسلے میں پالیسی سطح کے مذاکرات اختتامی مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں اور فریقین کے درمیان میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز کے مسودے کو حتمی شکل دینے پر مشاورت کی جا رہی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ وفاقی سیکریٹری خزانہ کی سربراہی میں معاشی ٹیم نے آئی ایم ایف مشن سے ملاقات کی ہے اور وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی بھی مشن سے ملاقات متوقع ہے، مذاکرات میں میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز کے مسودے کو حتمی شکل دینے پر غور کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق ایف بی آر کی جانب سے ممبر کسٹمز پالیسی سمیت دیگر حکام آئی ایم ایف مشن سے مذاکرات میں شامل ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ رواں مالی سال کے ٹیکس اہداف اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیےاقدامات پر بھی بات چیت ہوئی، اس دوران آئی ایم ایف نے ٹیکس میں کمی پوری کرنے کے لیے اضافی ٹیکس کی تجویز دی تاہم ابھی اس بارے میں کوئی اتفاق نہیں ہوا ہے۔

حکومتی ٹیم کا کہنا تھا کہ ٹیکس تنازعات کے کیسوں میں پھنسے ہوئے اربوں روپے کے واجبات کی ریکوری ریونیو شارٹ فال کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے، اس کے علاوہ انتظامی اور انفورسمنٹ اقدامات سے بھی اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا۔

دوسری جانب آئی ایم ایف کی تجویز ہے کہ شارٹ فال پورا کرنے کے لیے چند شعبوں پر ٹیکس عائد کیا جائے اور کچھ پر پہلے سے عائد رعایتی ٹیکس کی شرح واپس کرکے معیاری ٹیکس کی شرح لاگو کی جائے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں شوگر سیکٹر کی ڈی ریگولیشن، آٹو پالیسی اور ٹیرف اصلاحات پر تفصیلی بریفنگ دی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق شوگر سیکٹر کی ڈی ریگولیشن کا مقصد چینی کی صنعت پر حکومتی کنٹرول کم کرنا ہے تاکہ مارکیٹ خود قیمتوں اور پیداوار کا تعین کرے، آٹو پالیسی کے ذریعے گاڑیوں کی پیداوار، قیمتوں اور ٹیرف کا تعین کیا جائے گا۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری پالیسی سطح کے مذاکرات کی کامیابی سے تکمیل کے لیےوفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے متعلق اپنے زیر التوا معاملات کو فوری طور پر حل کریں تاکہ 7 ارب ڈالر کے توسیعی مالیاتی معاہدے (ای ایف ایف) کے دوسرے جائزے پر جاری مذاکرات ہفتے کے اختتام تک کامیابی سے مکمل ہوسکیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم آفس کی جانب سے بھی صوبائی دارالحکومتوں میں تعینات وفاقی افسران سے رابطہ کرکے انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ زیر التوا معاملات اور آئندہ اہداف پر پیش رفت کو آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کے مطابق ہم آہنگ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں یہ ہدایات صرف ای ایف ایف کے لیے نہیں بلکہ 1.4 ارب ڈالر کے موسمیاتی لچک اور پائیداری فنڈ (ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسلٹی) کے حوالے سے بھی دی گئی ہیں، اسی نوعیت کی ہدایات وفاقی وزارتوں کو بھی جاری کی گئیں۔

صوبائی چیف سیکریٹریز اور فنانس سیکریٹریز کو ہدایت کی گئی کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر اپنی پیش رفت کی تازہ رپورٹ جمع کرائیں اور کسی بھی ہدف کے پورا نہ ہونے یا تاخیر کی واضح وجوہات بیان کریں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے علاقائی کشیدگی میں ممکنہ اضافے کو معیشت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ کشیدگی بڑھنے سے معاشی شرح نمو میں سست روی کا خدشہ ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق عالمی سطح پر غیر یقینی صورت حال برقرار ہے، علاقائی کشیدگی میں اضافہ بیرونی استحکام کو متاثر کر سکتا ہے اور غیر یقینی حالات غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کرسکتے ہیں اور کشیدگی بڑھنے سے اجناس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

Similar Posts