پاکستان کے قرضوں میں رواں مالی سال کے پہلے دو مہینوں (جولائی اور اگست 2025) کے دوران 430 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، جون 2025 کے آخر میں ملک کا کُل قرض 77.888 کھرب روپے تھا جو اگست 2025 کے آخر تک کم ہو کر 77.458 کھرب روپے رہ گیا۔
اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر کمی اندرونی قرضوں میں ہوئی، جو 398 ارب روپے کم ہو کر 54.073 کھرب روپے تک پہنچ گئے۔ یہ کمی وفاقی حکومت کی جانب سے کم قرض لینے اور اسٹیٹ بینک کے منافع کی منتقلی کے باعث ہوئی۔
گزشتہ مالی سال میں اسٹیٹ بینک نے 2.5 کھرب روپے منافع کمایا، جس میں سے 2.4 کھرب روپے وفاقی حکومت کو دے دیے گئے۔ اس رقم سے حکومت کو اپنے کچھ قرض واپس کرنے میں مدد ملی اور قرض کا بوجھ کچھ کم ہوگیا۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق، 29 اگست 2025 کو حکومت نے اسٹیٹ بینک کو 1.133 کھرب روپے واپس کیے، جس سے سال 2025 میں اسٹیٹ بینک کے قرض کی قبل از وقت واپسی کی رقم 1.633 کھرب روپے ہوگئی۔
ماہرین کے مطابق، اسٹیٹ بینک کے منافع کی منتقلی کے بعد حکومت نے بینکوں سے کم قرض لیا، جس سے بینکوں کے پاس نجی کاروباروں کو قرض دینے کے لیے زیادہ رقم دستیاب ہوئی۔
طویل المدتی قرضوں میں 298 ارب روپے کی کمی ہوئی، جو جون میں 45.651 کھرب روپے سے کم ہو کر اگست میں 45.353 کھرب روپے رہ گیا۔ قلیل المدتی قرضے بھی 105 ارب روپے کم ہوکر 8.654 کھرب روپے رہ گئے۔
البتہ ”نیا پاکستان سرٹیفکیٹ“ کے تحت قرضوں میں معمولی اضافہ ہوا، جو 62 ارب روپے سے بڑھ کر 66 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
بیرونی قرضوں میں بھی معمولی کمی دیکھی گئی، جو روپے کی قدر کے مطابق 32 ارب روپے کم ہوئے اور 23.417 کھرب روپے سے کم ہو کر 23.385 کھرب روپے رہ گئے۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ قرض میں کمی خوش آئند ہے، لیکن ملک کو پائیدار مالی استحکام کے لیے مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔
بینک نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے اور خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کو بہتر بنائے تاکہ ترقیاتی منصوبوں اور عوامی فلاح کے لیے زیادہ فنڈز دستیاب ہوسکیں۔