قاہرہ مذاکرات میں اہم پیشرفت: اسرائیل اور حماس میں قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ

0 minutes, 0 seconds Read

مصر میں اسرائیلی اورفلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان جاری بالواستہ مذاکرات کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے لیے ناموں کی فہرست متعلقہ فریقین کے حوالے کردی ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق غزہ میں دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں بدھ کے روز اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جب فلسطینی تنظیم حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے قیدیوں کی فہرست ثالثی ممالک کے حوالے کی اور مذاکرات میں شریک تمام فریقین نے ’امید‘ کی فضا کا اظہار کیا ہے۔

حماس نے آج جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ “ہم ،صدر ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے پر جاری مذاکرات سے پُرامید ہیں اور ہم نے، معاہدے کے تحت رہا کئے جانے والے اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے ناموں کی، فہرستوں کا تبادلہ کیا ہے ۔

یاد رہے کہ مذاکرات پیر کے روز مصر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں شروع ہوئے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی منصوبے کے تحت ہو رہے ہیں۔


AAJ News Whatsapp

اس منصوبے میں جنگ بندی، اسرائیلی افواج کا غزہ سے انخلا، حماس کا غیر مسلح ہونا اور یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔ منصوبے کے تحت 72 گھنٹوں کے اندر تمام 48 یرغمالیوں کو رہا کیا جانا ہے، جن میں کم از کم 26 کی موت کی تصدیق ہوچکی ہے۔

حماس کے اعلیٰ رہنما طاہر النونو اور خلیل الحیہ بھی شرم الشیخ میں موجود ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ ”تمام فریقین کے درمیان امید کی فضا ہے، اور ثالث جنگ بندی کے نفاذ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔“

امریکی صدر ٹرمپ کے داماد اور مشیر جیرڈ کُشنر اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بدھ کے روز مصر پہنچے، جس سے مذاکرات کی سنجیدگی اور پیش رفت کا اندازہ ہوتا ہے۔ قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی، ترکی کے خفیہ ادارے کے سربراہ ابراہیم کالن، اور اسرائیلی وزیر رون ڈرمر سمیت کئی اہم شخصیات بھی مذاکرات میں شامل ہیں۔

حماس کے اعلیٰ رہنما طاہر النونو اور خلیل الحیہ بھی شرم الشیخ میں موجود ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ”تمام فریقین کے درمیان امید کی فضا ہے، اور ثالث جنگ بندی کے نفاذ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔“

طاہر النونو کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ثالث جنگ بندی کے نفاذ کے مراحل میں کسی بھی رکاوٹ کو دور کرنے کیلیے کوششیں کر رہے ہیں اور تمام فریقین میں امید کا ماحول ہے۔

حماس رہنما نے بتایا کہ مذاکرات جنگ کے خاتمے کے طریقہ کار، غزہ کی پٹی سے قابض اسرائیلی افواج کے انخلا اور قیدیوں کے تبادلے پر مرکوز ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ رہا کیے جانے والے قیدیوں کی فہرستیں آج متفقہ معیار اور تعداد کے مطابق تبادلہ کی گئیں، تمام فریقین اور ثالثوں کی شرکت سے بالواسطہ مذاکرات آج بھی جاری ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حماس نے اپنی قیدیوں کی فہرست میں ان فلسطینیوں کے نام شامل کیے ہیں جو اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کاٹ رہے ہیں، جن پر سنگین دہشت گردی کے الزامات ہیں۔ اس کے علاوہ، حماس اپنے مقتول رہنماؤں یحییٰ السنوار اور محمد السنوار کی باقیات کی واپسی کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔ یحییٰ سنوار 7 اکتوبر 2023 کے اسرائیلی حملے کے مرکزی منصوبہ ساز تھے اور 2024 میں اسرائیلی کارروائی میں مارے گئے تھے۔

مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ حماس سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ ہے، جسے تنظیم مسلسل مسترد کرتی آ رہی ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ حماس ہتھیار ڈالے اور غزہ کی انتظامیہ ایک بین الاقوامی فورس کے حوالے کی جائے، تاہم حماس کا مؤقف ہے کہ وہ صرف اُس وقت ہتھیار ڈالے گی جب ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے گی۔

Similar Posts