غذاکے علاوہ دوابھی انسانی جسم کی لازمی ضرورت سمجھی جاتی ہے اور کسی بھی قسم کی چھوٹی یابڑی بیماری کی علامات سامنے آنے پر دواکے استعمال سے شفاء کاحصول ممکن بنایا جاتا ہے۔ دھیان رہے غذااوردوا میں ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے، دواصرف بیماری کی حالت میں استعمال کی جاتی ہے اور دواکے استعمال میں مقدار، وقت اور طریقہ استعمال کوبہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ دوا ہمارے بدن کوبیماری سے نجات دلانے میں مدد وتعاون فراہم کرتی ہے۔ دوا ہمیشہ ماہر مستند اور تجربہ کارمعالج کی تجویز پر استعمال کرنی چاہیے اور دوا استعمال کرتے وقت اس کی مناسب مقدار، وقت کے تعین اورطریقہ استعمال کاخاص خیال رکھناچاہیے۔
غذا ہمارے بدن کے افعال واعمال کی سرانجام دہی کے لیے ہماری مستقل ضرورت ہے۔
فی زمانہ مبینہ طور پر بعض بزعم خودنام نہاد طبی ماہرین نے اپنی مقبولیت اور ویورشپ کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیاپر غذاکی اہمیت اور دواکی ضرورت کوباہم خلط ملط کرکے عام آدمی کے لیے بدنی مسائل میں مزیداضافہ کردیاہے۔
مزیدبرآں یہ کہ نت نئی ایسی ایسی طبی تراکیب وائرل کی جارہی ہیں جن کا طبی اصول علاج اور انسانی صحت سے دوردور کاواسطہ بھی نہیں ہے۔
سائنسی جدت کے نام پر قدرتی اجزاء اور فطری طرز علاج کو بھی ذاتی مفادات سے آلودہ کردیاہے۔ سوشل میڈیاپر وائرل بعض نام نہاد طبی ماہرین نے ویوز سمیٹنے کی دوڑ میں ایسے ایسے ٹوٹکے متعارف کرواچھوڑے ہیں جن میں شامل اجزاء کودیکھ اور بیان کردہ فوائد کو پڑھ کر ہی علم مفردات کے ماہرین کاسر چکرا اٹھتا ہے۔ سوشل میڈیاکے مقبول سنے سناے ٹوٹکوں میں سے ایک ملٹی گرین آٹا بھی ہے جسے ذیابیطس۔ بلڈپریشر۔ کولیسٹرول۔ یورک ایسڈ اور کئی دوسری بیماریوں کے لیے حتمی شفاء رسانی کے ذریعے کاپروپیگنڈا عام کیاجاتا ہے۔ ملٹی گرین آٹے کے بارے خیال کیاجاتا ہے کہ یہ من جملہ جسمانی امراض کے خاتمے کے لیے اکیلاہی کافی ہے۔
قارئین!ایک بات ذہن نشین کرلیں دنیا کاکوئی ٹوٹکہ اور وائرل نسخہ محض وقتی مصروفیت اور تسلی کاباعث توبن سکتاہے لیکن علاج شفاء کے حصول کا یونیورسل ذریعہ ہے۔علاج کے لیے مستند ماہر اور سمجھدار معالج کی مشاورت سے دوا غذا اور پرہیز کااستعمال کرکے ہی صحت مند زندگی کاحصول ممکن بنایاجاسکتاہے۔
ملٹی گرین آٹے میں شامل معروف بیج اناج اور جڑی بوٹیوں میں سے چند چنے، جو، جئی، جوار، باجرہ، مکئی، السی، کلونجی، سہانجنہ( مورنگا) میتھی دانہ اور گندم وغیرہ بطور اجزاء استعمال کیے جاتے ہیں۔ بطور طبیب جب ہم ان تمام اجزاء کاان کے عناصر، معدنیات، خواص،فوائد اور استعمال کاتجزیہ کرتے ہیں تو ان کے اثرات عمومی طور پر قدرے مفید لیکن شوگر بلڈ پریشر کولیسٹرول یورک ایسڈ اور دل وگردے کے مریضوں کے لیے خاص حالات میں بے حد مضر صحت اور نقصان دہ نتائج کاپتہ دیتے ہیں۔
آئیے مندرجہ بالا غذائی اجزاء کاترتیب وار جائزہ لیتے ہیں۔
سیاہ چنے:۔ بلحاظ مزاج گرم تر ہیں اور ان میں باقی بہت سے معدنیاتی، دھاتی اور نباتی عناصر کے ساتھ ساتھ اوگزلیٹ ایسڈ کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔ یہی عنصر وہ مادہ ہے جس سے گردے میں پتھری بننے کاعمل پروان چڑھتا ہے۔ پتھری کی افزائش سے گردوں کی کارکردگی متاثر ہو کر یورک ایسڈ یوریا اور کریٹینائن جیسے صحت دشمن عناصر کی بڑوھتری ہوتی ہے۔ معلومات عام ہونے کے اس دور میں ہم سب کے مشاہدے میں یہ بات آرہی ہے کہ شوگرمیں مبتلا ہر مریض جلد یا بدیر دل اور گردوں کے مسائل میں لازمی گرفتار ہوجاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب ایک مریض گردوں کے مسائل کے رسک پر پہلے ہی سے ہو اسے ایسی غذا جو گردوں کے لیے مہلک عناصر کی پیدائش کا باعث بنے،مریض کو کسی ماہر معالج کے مشورے کے بغیر استعمال کروانا دانش مندی ہوگی؟ ہر گز نہیں۔ عام طور پر معروف ملٹی گرین آٹے میں چنوں کی مقدار قدرے زیادہ شامل کی جاتی ہے۔ تاہم مزکورہ خواص کے باوجود چنے صدیوں سے انسانی خوراک کاحصہ چلے آرہے ہیں۔طبی وغذائی ماہرین نے ہر غذا کے مضر صحت اثرات کو کم کرنے کے لیے اسے کسی دوسرے مصلح غذائی عنصر کے ساتھ شامل کرکے استعمال کی ترغیب دی ہے۔ لہٰذا چنوں کو بطور غذا کسی غذائی ماہر اور سمجھدار طبیب کے مشورے سے استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
باجرہ:۔ گرم خشک مزاج کے حامل اناج میں انتہائی قلیل مقدار میں غذائیت پائی جاتی ہے جبکہ باجرے میں بہت زیادہ بادی نفخ قبض دیر ہضم خصوصیات کے ساتھ ساتھ خشکی پیداکرنے کی صلاحیت وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ سمجھدار طبی ماہرین جانتے ہیں کہ بدن انسانی میں بڑھتی عمر کے ساتھ خشکی میں بھی اضافہ ہونے لگتاہے اور انجماد خون سے لے کر کولیسٹرول یورک ایسڈ فالج گھنٹیا نقرس کمر درد شائیٹیکا پین جگر اور گردوں کے سکڑنے سمیت دل کے ناکارہ ہونے میں خشکی کاخاطر خواہ کردار ہوتاہے۔ کلینکلی مشاہدے کی بات ہے کہ شوگر اور دل کی ادویات کھانے والے افراد میں پہلے ہی خشکی کاغلبہ پایا جاتا ہے۔ آپ بھی یہ بات دیکھ سکتے ہیں کہ شوگر اور دل کی ادویات کا متواتر استعمال کرنے والے مریضوں کی اکثریت بواسیر اور قبض میں مبتلا پائی جاتی ہے۔ بیان کردہ حقائق کی موجودگی میں شوگر گردے یادل کے مریضوں کو بطور غذا باجرے کااستعمال کرانا صحت دشمنی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں باجرہ بطور چارہ مویشیوں کی مرغوب غذاہے۔انسانی غذامیں تو صرف سال بھر میں ایک آدھ بار سردیوں میں سرسوں کے ساگ کے ساتھ مکھن اور دیسی گھی کی وافر مقدارکے ساتھ شامل کیاجاتاہے۔
جوار:.جوار کامزاج گرم خشک ہے اور اس میں نائٹروجنی مادے کی بہتات پائی جاتی ہے۔ قبض کاباعث بنتی ہے دیر ہضم پیٹ میں گیس اور اپھارہ پیداکرتی ہے۔مزکورہ خواص کی موجودگی میں ایک بیمار آدمی تودور کی بات ہے صحت مند انسان کے لیے بھی جوار کاآٹاکھاکرکئی بدنی مسائل میں مبتلا ہونے کے امکانات روشن دکھائی دیتے ہیں۔جوار کے بھی انسانی غذامیں شامل ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ہیں یہ بھی مویشیوں کی مرغوب غذا مانی جاتی ہے۔
جو: مزاج کے لحاظ سے سرد خشک خصوصیات رکھتے ہیں۔مزاج کی گرمی کواعتدال پرلاتے ہیں صفراء کی تیزی کاخاتمہ اور پیاس بجھاتے ہیں۔ جو کے ستو اور آب جو طبیعت میں فرحت وتازگی کا بہترین ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔جو کوکم غذائیت کی حامل خوراک سمجھاجاتا ہے اسی لیے مریضوں کو جو کا دلیہ کھلاے جانے کامعمول ہے۔بیماری کے باعث رونماہونے والی کمزوری دور کرنے کے لیے جوکھجور اور شہد کامرکب تلبینہ بہترین ٹانک ماناجاتاہے۔جوجلد ہضم نہیں ہوتے کسی حد تک قبض کرتے ہیں اور معدہ خراب ہونے کی صورت میں بدہضمی اور گیس کاسبب بھی بن سکتے ہیں۔ طب نبوی میں جو کااستعمال بڑے وثوق سے کیا جاتا رہا ہے۔ جو کوکچااستعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ جو کے ستو بنا ئے جائیں خواہ آٹا بہرصورت جو بھون کر ہی استعمال کرنے سے اس کے مکمل فوائد کا حصول ممکن ہے۔ سوشل میڈیاپر بکنے والے ملٹی گرین آٹے میں ممکنہ طور پر جو کچے ہی شامل کیے جاتے ہیں جو کہ صحت مندانہ طرز عمل نہیں ہے۔
جئی:۔ جئی کابھی بطور انسانی خوراک طبی خواص کی کتب میں ذکر مفقود ہے۔ جئی بھی صدیوں سے بطور چارہ مال مویشیوں کی خوراک ہی سمجھی جاتی ہے۔محض چند معدنی اجزاء اور وٹامنز کی موجودگی کے سبب مال مویشیوں کی خوراک کو بطور غذا استعمال کرنا دانش مندانہ فعل نہیں ہوسکتا۔
السی:.السی کابطور دوا استعمال صدیوں سے ہوتا آرہا ہے۔ السی کا مزاج گرم خشک ہے اور اس کا استعمال 5گرام سے 10گرام تک کیا جاسکتا ہے۔ یہ بدن انسانی کو نقصان دہ رطوبات اور مادے جیسے بلغم کولیسٹرول اور یورک ایسڈ سے پاک کرتی ہے۔امراض قلب گردہ اور فالج لقوہ شاٹیکاپین کمردرد جوڑوں کادرد اور گھنٹیاکے خاتمے میں معاون قدرتی نباتات میں سے ہے۔ السی چونکہ دوا ہے لہٰذا اسے بطور دواہی استعمال کیا جانا مناسب ہے، ورنہ مقدار خوراک اور طریقہ استعمال میں کمی بیشی سے مزید بدنی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہوسکتاہے۔
کلونجی:۔ مزاج کے لحاظ سے کلونجی بھی گرم خشک خواص کی حامل مفرد نبات ہے۔اس کی مقدار خوارک 1گرام سے 3گرام تک استعمال کی جاسکتی ہے۔کلونجی قوت مدافعت بدن کو مضبوط کرنے میں معاون بنتی ہے اور سیزنل الرجی ناک بہنا چھینکیں آنا وغیرہ کی روک تھام میں مفید ومْوثر ثابت ہوتی ہے۔معدے کی کمزوری دورکرتی ہے پیٹ میں گیس بننے کے عمل کوروکتی اور مثانہ کو طاقت فراہم کرتی ہے۔کلونجی کا بے جا اور غیر ضروری استعمال حاملہ خواتین کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔
سہانجنہ (مورنگا):۔ صدیوں سے ہماری خوراک کاحصہ ہے اور اس کے پھول،پھلیاں ومولی بطور غذا استعمال کیے جاتے ہیں۔پھول اور پھلیوں کاسالن جبکہ سہانجنے کی جڑ اور پھلیوں کا اچار لذت اور غذائیت سے بھرپور خوراک سمجھی جاتی ہے۔ اس کامزاج گرم وخشک ہے اور بطور دوا اس کی مقدار 3سے5 گرام استعمال کی جاسکتی ہے۔ کولیسٹرول یورک ایسڈ بلغمی مواد کو ختم کرتاہے۔گھنٹیا فالج لقوہ جوڑوں کے درد کمر درد اور بادی کے تمام امراض سے محفوظ رکھنے میں مفیدومعاون ثابت ہوتاہے۔چونکہ سہانجنہ کی شناخت بطور دواہے اس لیے اس کاآٹا وغیرہ استعمال کرنے میں صحت کانقصان ہوسکتاہے۔
میتھی دانہ:۔ میتھی صدیوں سے ہمارے کچن کا حصہ ہے اور مختلف سالن اور ڈشز کی غذائیت اور لذت کو میتھی کی خوشبو دوبالا کرتی آرہی ہے۔عام طور ہر اس کے پتے استعمال کیے جاتے ہیں۔میتھی کا مزاج گرم خشک ہے اور اس کی مقدار خوراک 3سے5گرام تک ہی استعمال ہوسکتی ہے۔ بطور دوا میتھی تلی کے بڑھ جانے میں مفید مْوثر ثابت ہوتی ہے۔کمر درد دور کرتی ہے اور اعصابی کمزوری کاخاتمہ کرکے مردانہ صحت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔بوڑھاپے میں باربار پیشاب آنے کی بیماری سے نجات دلاتی ہے اور خواتین کی خوبصورتی کو چار چاندلگانے کے لیے مشہور گھریلو دوا بھی۔بڑھتی عمر کے ساتھ چہرے کی جھریوں اور سلوٹوں کودور کرنے کے لیے میتھی کے پتوں کاکچے دودھ میں۔پیسٹ بنا کر چہرے پر لیپ کرنے سے چند دنوں میں چہرہ جواں دکھائی دینے لگتا ہے۔ میتھی کے بطور دوا استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے اس کی مقدار خوراک زیادتی بدنی مسائل کاسبب بن سکتی ہے۔
مندرجہ بالا طبی حقائق کی روشنی میں کہاجاسکتاہے اول یہ کہ انسانی اور حیوانی خوراک میں فرق روارکھاجانا ضروری ہے۔دوسرے یہ کہ کسی بھی غذائی عنصر کو بطریق معروف ہی استعمال کرنا مناسب ہے اور محض جدت کا تڑکا لگا کر اسے مضر صحت بنانے سے محتاط رہنا چاہیے۔ تیسری اہم اور ضروری بات یہ کہ اگر ملٹی گرین آٹے کے فوائد سے استفادہ چاہتے ہیں تو گندم جو اور چنے بہترین اجزاء ہیں۔اس ملٹی گرین آٹے کی ترتیب میں گندم 70% جو 15% اور چنے بھی 15%شامل کرکے آٹا پسوا لیں لیکن آٹا بہت باریک نہیں ہونا چاہیے۔
اسی طرح جو اور چنے بھون کر پسوائے جائیں اور ان کے چھلکے بھی آٹے میں ہی شامل کیے جائیں۔صحت بخش ملٹی گرین آٹاتیارہے اب اس کی روٹی بنائیں دیسی گھی میں چوری بناکر یا روٹی کے اوپر دیسی گھی بادام روغن لگاکر استعمال کریں۔انشاء اللّٰہ یہ ترکیب فائبر کی کثیر مقدار کے ساتھ بہترین مفید مْوثر اور صحت افزاء ثابت ہوگی۔سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ سنے سنائے ٹوٹکوں کے غیر ضروری استعمال سے ممکنہ حد تک بچنے کی کوشش کریں۔کسی بھی مفرد نباد کے مکمل اور مفید فوائد کے حصول کے لیے سمجھدار معالج اور غذائی ماہر کے مشورے سے ہی استعمال کریں۔احتیاط ہی علاج کے اصول پر عمل پیراہوکر بھرپور توانااور صحت مند زندگی کالطف اٹھائیں۔