لیویز ذرائع کے مطابق یہ واقعہ گزشتہ رات پیش آیا جب ایک درجن سے زائد مسلح افراد نے اسلحے کے زور پر کانکنوں محبوب احمد، حبیب اللہ خان اور میر ہزار خان کو یرغمال بنا کر نامعلوم مقام پر لے گئے۔
اطلاع ملتے ہی سیکورٹی فورسز لیویز اور پولیس کی بھاری نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے کر مغویوں کی بازیابی کے لیے وسیع پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
لیویز حکام نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ اغوا کا واقعہ رات گئے اس وقت پیش آیا جب تینوں کانکن رضا کوئلہ کان نمبر 172 میں اپنے معمول کے کام میں مصروف تھے حملہ آوروں نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کان کی چوکی پر قبضہ کیا اور بغیر کسی مزاحمت کے کانکنوں کو اغوا کر لیا۔
عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور جدید ہتھیاروں سے لیس تھے اور منظم انداز میں کارروائی کر کے فرار ہو گئے واقعے کے فوری بعد ضلع کچھی کی انتظامیہ نے ہنگامی اقدامات کیے۔
ڈپٹی کمشنر کچھی اور ایس پی مچھ نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور سرچ آپریشن کی نگرانی شروع کی۔ سیکورٹی فورسز نے مچھ کے پہاڑی علاقوں اور آس پاس کے راستوں کو مکمل طور پر سیل کر دیا ہے۔
فضائی نگرانی کے لیے ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی لی جا رہی ہے لیویز کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ مغویوں کو بحفاظت بازیاب کر لیا جائے مقامی قبائلی رہنماؤں سے بھی رابطہ کیا گیا ہے تاکہ ان کی مدد سے سراغ حاصل کیا جا سکے۔
یہ واقعہ بلوچستان میں کوئلہ کانوں پر سکیورٹی خدشات کو ایک بار پھر اجاگر کرتا ہے مچھ، ہرنائی اور دکی جیسے علاقوں میں کانکنوں کو نشانہ بنانے کے واقعات ماضی میں بھی رونما ہو چکے ہیں۔
رواں سال اکتوبر میں دکی میں 20 کانکنوں کا قتل اور 2021 میں مچھ میں 11 ہزارہ کانکنوں کی ہلاکت اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں شدت پسند گروہ سرگرم ہیں جو معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچانے اور عدم استحکام پھیلانے کے لیے ایسی کارروائیاں کرتے ہیں۔
مقامی کانکن یونین کے رہنما عبداللہ ہزارہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کانکن اپنی جانوں پر کھیل کر ملک کی معیشت کو سہارا دیتے ہیں، لیکن ان کی حفاظت کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر مغویوں کی بازیابی کو یقینی بنائے اور کوئلہ کانوں کی سکیورٹی کو مضبوط کرے۔
ہزارہ برادری نے بھی کوئٹہ میں احتجاج کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حملے فرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے ان واقعات کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بھی سوشل میڈیا پر بیان جاری کرتے ہوئے مغویوں کی فوری بازیابی کے لیے اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہے۔
مچھ بلوچستان کا ایک اہم کوئلہ پیدا کرنے والا علاقہ ہے، جو کوئٹہ سے 80 کلومیٹر دور پہاڑی سلسلوں میں واقع ہے۔
یہ علاقہ اپنی معدنی دولت کے باوجود سکیورٹی مسائل کا شکار رہتا ہے۔ واقعے کے بعد کانوں کی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہیں، اور سیکورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔