صدر ٹرمپ کے مطابق معاہدے کے تحت تمام یرغمالیوں کی جلد رہائی عمل میں لائی جائے گی اور فریقین کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنایا جائے گا۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے تاریخی امن معاہدے میں مستقل جنگ بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے، غزہ کی تعمیرِ نو اور انسانی و تجارتی امداد کی فراہمی جیسے اہم نکات شامل ہیں۔
اس موقع پر اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی معاہدے کو اپنی ’’سیاسی، اخلاقی اور قومی فتح‘‘ قرار دیا اور امریکی صدر کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔
دوسری جانب حماس نے معاہدے کے ضامن ممالک امریکا، ترکیہ، قطر اور مصر سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو معاہدے کی تمام شقوں پر سختی سے عمل درآمد کا پابند بنایا جائے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جب تک فریقین ایمانداری سے شرائط پر کاربند نہیں رہتے، حقیقی امن ممکن نہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت ہفتہ یا اتوار سے اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ شروع کیے جانے کا امکان ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کا عمل پیر کے روز شروع ہونے کی توقع ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے معاہدے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کا تبادلہ باعزت انداز میں ہونا چاہیے اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے مطابق، اس معاہدے پر عمل درآمد ہی خطے میں دیرپا امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔
یاد رہے کہ یہ معاہدہ گزشتہ روز مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں امریکا، ترکیہ، قطر اور مصر کی سرپرستی میں طے پایا، جسے عالمی سطح پر ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔