مختلف ممالک کے سربراہان نے جنگ بندی اور مغویوں کی رہائی کے اس اقدام کو ’’بڑی کامیابی‘‘ اور ’’پائیدار امن کی طرف پہلا قدم‘‘ قرار دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائیل اور حماس نے ہمارے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کر لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام مغوی جلد رہا ہوں گے اور اسرائیل اپنی افواج کو متفقہ لائن تک واپس لے جائے گا۔ یہ امن کی طرف پہلا مضبوط قدم ہے۔‘‘
https://truthsocial.com/@realDonaldTrump/115340993884364431
انہوں نے قطر، مصر اور ترکی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’مبارک ہیں وہ لوگ جو امن قائم کرتے ہیں۔‘‘
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس معاہدے کو اسرائیل کےلیے ایک ’’عظیم دن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اپنے تمام مغویوں کو واپس لانے اور اپنے مقاصد کے حصول تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘‘ انہوں نے صدر ٹرمپ کی قیادت اور اسرائیلی فوج کی قربانیوں کو سراہا۔
With the approval of the first phase of the plan, all our hostages will be brought home. This is a diplomatic success and a national and moral victory for the State of Israel.
From the beginning, I made it clear: we will not rest until all our hostages return and all our goals…
— Benjamin Netanyahu – בנימין נתניהו (@netanyahu) October 8, 2025
حماس نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’’ہم قطر، مصر، ترکی اور امریکی صدر ٹرمپ کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قابض حکومت معاہدے کی مکمل پاسداری کرے اور عمل درآمد میں تاخیر نہ کرے۔‘‘ حماس نے اپنے عوام کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم آزادی اور خودمختاری تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘‘
قطر کی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا کہ ’’جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے تمام نکات پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ معاہدہ جنگ کے خاتمے، مغویوں اور قیدیوں کی رہائی اور امدادی سامان کی فراہمی کی راہ ہموار کرے گا۔‘‘
The mediators announce that tonight an agreement was reached on all the provisions and implementation mechanisms of the first phase of the Gaza ceasefire agreement, which will lead to ending the war, the release of Israeli hostages and Palestinian prisoners, and the entry of aid.…
— د. ماجد محمد الأنصاري Dr. Majed Al Ansari (@majedalansari) October 8, 2025
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس پیش رفت کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’ہم صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ اقدام غزہ کے عوام کے لیے دیرپا امن کی بنیاد ثابت ہوگا۔‘‘
We welcome the agreement on the first phase of President Trump’s peace plan. This is also a reflection of the strong leadership of PM Netanyahu.
We hope the release of hostages and enhanced humanitarian assistance to the people of Gaza will bring respite to them and pave the way…
— Narendra Modi (@narendramodi) October 9, 2025
برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ ’’یہ لمحہ دنیا بھر میں اطمینان اور امید لے کر آیا ہے۔ ضروری ہے کہ اس معاہدے پر فوری اور مکمل عمل درآمد ہو اور انسانی امداد پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔‘‘
I welcome the news that a deal has been reached on the first stage of President Trump’s peace plan for Gaza. pic.twitter.com/LIlo8103aJ
— Keir Starmer (@Keir_Starmer) October 9, 2025
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں امریکا، قطر، مصر اور ترکی کی سفارتی کوششوں کو سراہتا ہوں۔ تمام مغویوں کو باوقار طریقے سے رہا کیا جائے، اور مستقل جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے۔ یہ لڑائی ہمیشہ کے لیے بند ہونی چاہیے۔‘‘
I welcome the announcement of an agreement to secure a ceasefire & hostage release in Gaza, based on the proposal put forward by @POTUS. I commend the diplomatic efforts of the United States, Qatar, Egypt & Türkiye in brokering this desperately needed breakthrough.
I urge all…
— António Guterres (@antonioguterres) October 9, 2025
نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے کہا کہ ’’یہ دیرپا امن کی طرف ایک لازمی قدم ہے۔ ہم اسرائیل اور حماس دونوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس راستے پر آگے بڑھیں۔‘‘
New Zealand welcomes the announcement of the first phase of the US-led peace deal between Israel and Hamas.
Press release:https://t.co/fJ38cXXATa
— Winston Peters (@NewZealandMFA) October 8, 2025
یہ عالمی ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ غزہ میں برسوں سے جاری جنگ کے بعد اب دنیا حقیقی امن کی اُمید باندھے بیٹھی ہے، ایک ایسا امن جو محض کاغذوں پر نہیں بلکہ میدانِ عمل میں قائم رہے۔