حماس کی جانب سے غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر دستخط کیے جانے کی تصدیق کردی گئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان مہینوں سے جاری خونی تنازع کے بعد بالآخر جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔
غزہ جنگ بندی معاہدہ نافذالعمل ہو گیا ہے۔ غزہ جنگ بندی معاہدہ پاکستانی وقت کے مطابق 2 بجے سے نافذالعمل ہو گیا۔
یہ معاہدہ مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کے بعد جمعرات کو فریقین نے معاہدے پر دستخط کردیئے، جس کی باضابطہ تصدیق اسرائیلی اور حماس کے حکام نے کر دی ہے۔
معاہدے کے مطابق، اسرائیل غزہ سے جزوی طور پر فوجی انخلا کرے گا اور حماس ان اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی جنہیں اکتوبر میں شروع ہونے والی تازہ جنگ کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کے بدلے میں اسرائیل متعدد فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرے گا۔
یہ پیش رفت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس مجوزہ منصوبے کا پہلا مرحلہ قرار دی جا رہی ہے، جس کا مقصد غزہ میں جاری جنگ کا خاتمہ اور خطے میں مستقل قیامِ امن کی راہ ہموار کرنا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق مصر کے سرکاری میڈیا نے بھی تصدیق کی ہے غزہ جنگ بندی معاہدہ نافذ العمل ہوا۔ مصری وزارت خارجہ نے کہا کہ مصر نے غزہ جنگ بندی معاہدے کو اہم لمحہ قرار دے دیا۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اپنے بیان میں کہا کہ دنیا ایک تاریخی لمحے کی گواہ ہے۔ جہاں امن نے فتح حاصل کی۔ دو سال کی تکالیف کے بعد غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہوا۔ اسرائیلی عہدیدار کے مطابق غزہ سے 20 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اتوار یا پیر کو متوقع ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری جنگ روکنے اور غزہ میں یرغمال قیدیوں کی رہائی کے لیے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر مصر میں دستخط کر لیے گئے تھے۔
معاہدے پر عمل درآمد کا واضح طریقہ کار
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کا نفاذ اس وقت ہوگا جب اسرائیلی حکومت کابینہ میں اس معاہدے کی باضابطہ منظوری دے گی۔ سیکیورٹی کابینہ کا اجلاس جمعرات کی شام متوقع ہے، جس کے بعد حکومتی منظوری دی جائے گی۔
اسرائیلی حکومت کی ترجمان نے بتایا کہ جنگ بندی کا نفاذ کابینہ کی منظوری کے 24 گھنٹوں کے اندر ہو جائے گا؛
جنگ بندی کے نافذ ہونے کے بعد 72 گھنٹوں کے اندر اندر غزہ میں قید تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا، دوئم اسرائیل فلسطینی قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی کا عمل شروع کرے گا، ساتھ ہی، اسرائیلی فوج غزہ سے جزوی انخلا کرے گی تاکہ امن و امان کی فضا قائم رہے۔
معاہدے کے اعلان کے بعد فلسطین اور اسرائیل کے مختلف علاقوں میں شہریوں کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا۔
ادھر، غزہ میں رات گئے آتش بازی کی گئی جبکہ تل ابیب میں لوگ سڑکوں پر آ کر یرغمالیوں کی رہائی کی امید میں نعرے لگاتے رہے۔
تاہم، بعض ماہرین نے معاہدے کے پائیدار ہونے پر خدشات کا اظہار بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے، مگر ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے اس عمل پر مکمل طور پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ”امن کی طرف ایک بڑا قدم“ قرار دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا نے اس معاہدے میں ثالثی کے لیے مصر اور قطر کے ساتھ قریبی رابطہ رکھا۔
مصر، جو ایک طویل عرصے سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا آیا ہے، نے بھی معاہدے کو اہم کامیابی قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سے خطے میں ایک پائیدار سیاسی عمل کا آغاز ہو گا۔
واضح رہے کہ یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب حماس نے غزہ کی پٹی سے ایک بڑا حملہ کیا، جس کے نتیجے میں درجنوں اسرائیلی شہری ہلاک اور کئی کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اس حملے کے ردعمل میں اسرائیل نے غزہ پر شدید فضائی اور زمینی کارروائیاں کیں، جن میں ہزاروں فلسطینی شہری جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔
اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے مسلسل جنگ بندی کی اپیلیں کی جا رہی تھیں، جو بالآخر اب عملی صورت میں سامنے آئی ہیں۔