نیتن یاہو کو معافی: اسرائیلی صدر کے دفتر نے ٹرمپ کا دعویٰ جھٹلا دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے انہیں بتایا ہے کہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو جلد صدارتی معافی دے دی جائے گی۔ تاہم اسرائیلی صدر کے دفتر نے اس بیان کی فوری طور پر تردید کر دی۔

ٹرمپ نے فلوریڈا میں نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں نیتن یاہو کو ساتھ کھڑا کرکے کہا کہ وہ جنگی حالات میں قیادت کرنے والے وزیر اعظم ہیں اور ایک ہیرو کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، اس لیے معافی نہ دینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

ٹرمپ کے مطابق انہوں نے اسرائیلی صدر سے بات کی اور انہیں بتایا گیا کہ معافی کا عمل آگے بڑھ رہا ہے۔

تاہم جب اس دعوے پر اسرائیلی صدر کے دفتر سے وضاحت مانگی گئی تو وہاں سے مختلف مؤقف سامنے آیا۔

صدر ہرزوگ کے دفتر نے کہا کہ معافی کی درخواست چند ہفتے قبل جمع کرائی گئی، اس کے بعد صدر کی ٹرمپ سے کوئی براہ راست گفتگو نہیں ہوئی۔

دفتر کے مطابق اس معاملے پر اسرائیلی صدر نے اس وقت ٹرمپ کے ایک نمائندے سے بات کی تھی اور واضح کیا گیا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ مقررہ قانونی طریقہ کار کے مطابق ہی کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ بنجمن نیتن یاہو اسرائیل کی تاریخ کے پہلے موجودہ وزیر اعظم ہیں جن پر فوجداری الزامات عائد کیے گئے۔

ان پر 2019 میں رشوت، دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد ہوئی تھی، جن کی وہ مسلسل تردید کرتے آ رہے ہیں۔

نیتن یاہو نے 30 نومبر کو باضابطہ طور پر صدارتی معافی کی درخواست دی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ بار بار عدالتی پیشیوں کی وجہ سے ان کے لیے حکومتی امور چلانا مشکل ہو رہا ہے اور معافی قومی مفاد میں ہوگی۔

یہ درخواست ایسے وقت میں سامنے آئی جب امریکا کی ثالثی میں غزہ میں جنگ بندی کا آغاز ہوا اور نیتن یاہو کی حکومت حماس کی حکمرانی کے خاتمے اور خطے میں سفارتی تعلقات کے فروغ کے لیے ایک وسیع منصوبے پر کام کر رہی تھی۔

تاہم نیتن یاہو کی معافی کی کوششوں پر اسرائیل کے اندر شدید تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ جاری عدالتی کارروائی کے دوران معافی دینا قانون کی حکمرانی کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہوگی۔

اسرائیلی قانون کے مطابق صدر کو سزا یافتہ افراد کو معافی دینے کا اختیار حاصل ہے، لیکن کسی مقدمے کے دوران، جب فیصلہ ابھی نہ آیا ہو، معافی دینے کی کوئی مثال موجود نہیں۔ اسی نکتے کو بنیاد بنا کر ناقدین اس درخواست کو غیر معمولی اور متنازع قرار دے رہے ہیں۔

نیتن یاہو کی اس کوشش کو امریکی صدر ٹرمپ کی کھلی حمایت حاصل ہے۔ ٹرمپ، جو نیتن یاہو کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے ہیں، نومبر میں اسرائیلی صدر کو ایک باضابطہ خط بھی لکھ چکے ہیں، جس میں انہوں نے نیتن یاہو کے خلاف مقدمے کو سیاسی اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے معافی دینے پر زور دیا تھا۔

Similar Posts